ڈاکٹر ذکیہ اورنگزیب

121

(دوسرا اور آخری حصہ)
کوالٹی ٹائم:
یہ اصطلاح بھی ہم بارہا سنتے ہیں کہ والدین بچوں کو کوالٹی ٹائم دیں۔ لیکن کوالٹی ٹائم کی کیا تعریف ہے؟ یہ والدین کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اکثر والدین بچوں کو اچھا کھلانا اچھا پہنانا، وقت پر اسکول اور ٹیوشن بھیجنا، ہوم ورک کروانا، ساتھ بیٹھ کر کارٹون دیکھنا یا چھپ کر ان کے فیس بک اکاؤنٹ چیک کرنا، موبائل ڈیٹا چیک کرنا، ریسٹورنٹ میں کھانا کھلانا، کہیں گھمانے لے جانا جیسے شیڈول کو کوالٹی ٹائم دینا سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بچوں اور والدین کے درمیان گفتگو ایسے جملوں تک محدود رہتی ہے: ہوم ورک کرلو، سوجاؤ، کھانا کھاؤ، اسکول کی مصروفیات وغیرہ۔ فارغ وقت میں کیونکہ ان کے درمیان گفتگو کے کو ئی مشترک موضوع نہیں ہوتے لہٰذا وہ اپنے سیل فون میں مگن رہتے ہیں۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ والدین اور بچوں کے درمیان یہ خلیج بڑھتی جاتی ہے۔
والدین اور بچوں کا تعلق پڑھائی اور کھلانے، پلانے، گھمانے کا نہیں بلکہ آپ کو بچوں کی شخصیت سازی کرنی ہے۔ اُن سے اُن کے مسائل ڈسکس کریں۔۔۔ حالاتِ حاضرہ، شاعری، اسپورٹس، اسکول کالج کی سرگرمیاں۔۔۔ اس میں اپنی رائے دیں، مشورے دیں، ان کے ساتھ ہلکا پھلکا مذاق کریں۔ کبھی کھانے کی میز پر، کبھی ایک ساتھ بیٹھ کر اپنے بچپن کی باتیں اور ہلکی پھلکی گفتگو کریں جس میں مصنوعیت نہ ہو، اور نہ ایسی گفتگو ہو کہ ’’میں تمہاری عمر میں یہ اور یہ کرلیا کرتا تھا‘‘۔ بلکہ واقعات، ہنسی مذاق والی کچھ یادیں ڈسکس کریں۔گفتگو میں بچوں کی دلچسپی کو بھی مدنظر رکھیں۔
والدین کو بچوں کی تمام مصروفیات پر انتہائی غیر محسوس طریقے سے بھرپور نظر رکھنی چاہیے، اور جہاں بھی خرابی محسوس کریں اس پر فوری ردعمل کے بجائے ایک لمحے رک کر سوچیں کہ ردعمل کیا ہونا چاہیے اور اس کا مناسب وقت کیا ہے۔ کبھی صرف فوری ٹوک دینا اور کبھی مناسب وقت کا انتظار بھی کرنا پڑتا ہے۔ آپ جذباتی طور پر بچوں کے اس قدر قریب ہوں کہ ان کے جذبات کو پہنچنے والی معمولی ٹھیس بھی آپ کی نظروں سے چھپی نہ رہ سکے۔
بچوں کے لیے آپ کی شخصیت آئیڈیل ہے۔ آپ کے قول وفعل میں معمولی تضاد ان کی شخصیت میں کسی بڑے تضاد کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
ایک نیا چیلنج:
آپ دیکھتے ہیں کہ اسکول میں کنڈر گارڈن کی ٹیچر الگ ہیں۔ جونیئر، مڈلرز اور سینئر سیکشن کے اساتذہ الگ ہیں۔ لیکن والدین کو بیک وقت ہر عمر کے بچوں پر توجہ دینی ہے۔ ان کے جذبات، احساسات، تعلیم و تربیت اور فطری مطالبات کو سمجھنا اور ان کو پورا کرنا ہے۔ یقیناًیہ معمولی کام نہیں، اس کے لیے کل وقتی توجہ اور انتہائی سمجھ داری مطلوب ہے۔ لیکن قدرت نے یہ عجیب انتظام کیا ہے کہ ایک اوسط سمجھ کی ماں اس کام کو بحسن و خوبی انجام دے لیتی ہے۔ لیکن ایسا صرف اُس وقت ممکن ہے جب ماں اپنی تمام تر مصروفیات اور مسائل کے باوجود صرف ماں ہو۔ یعنی اس کی سوچوں کا مرکز و محور بچوں کی نگہداشت، پرورش وتربیت ہو۔ ہم بچوں کو تربیتی لحاظ سے اس طرح تقسیم کرسکتے ہیں: شیر خوار، دو سال سے چھ سال، سات سال سے گیارہ سال، بارہ سے سترہ سال۔
شیر خوار:
’’اور مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔‘‘ (البقرہ)
بچہ پیدائش سے لے کر دو سال کی عمر تک ارتقائی مراحل انتہائی تیزی سے طے کرتا ہے۔ مکمل بات چیت کرنا، پہچاننا، ردعمل کا اظہار، چلنا، اپنی بات سمجھانا وغیرہ۔ تربیتی مراحل کا یہ قدرتی انداز ظاہر کرتا ہے کہ اس عمر میں بچوں کے سیکھنے کا عمل عمر کے کسی بھی حصے میں سیکھنے کے عمل سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ سمجھ دار والدین اس وقت کو صحیح استعمال کرکے مستقبل کی شخصیت کی عمارت کی پختہ بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ اس دور کی سب سے اہم ضرورت ماں کا دودھ اور جسمانی قربت ہے۔ جدید تحقیقات کے مطابق ماں کا دودھ شیر خوار بچوں کو انفیکشن اور الرجی سے محفوظ رکھتا ہے اور قوتِ مدافعت میں اضافہ کرتا ہے۔ اسی طرح ماں کے دودھ میں موجود فیٹی ایسڈ ڈی۔ ایچ150 اے کی بڑی مقدار دماغ میں پائی جاتی ہے (جو ڈبے کے دودھ میں شامل نہیں ہوتی، اب کچھ فارمولا میں شامل کی گئی ہے) جو دماغی نشوونما میں ماں کے دودھ کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق ابتدائی چھ ماہ بچے کو صرف اور صرف ماں کا دودھ دینا چاہیے۔ اولاد کو شرک سے بچانے اور توحید کی تعلیم دینے کا بہترین وقت بھی یہی شیر خوارگی کی عمر ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب بچے کی زبان کھل جائے تو اسے حدیث میں درج کلمہ سکھائیں۔ ’’اللہ ایک ہے‘‘ کلمہ اور ’’الحمدللہ‘‘ جیسے الفاظ، بیٹھ کر تین سانس میں پانی پینا جیسے چھوٹے چھوٹے اسلامی آداب دو سال کی عمر میں سکھائے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ والدین، دادا دادی، نانا نانی کے نام، گھر کا پتا، فون نمبر، اور کچھ دین کے بنیادی تصورات مثلاً توحید کے علاوہ رسول، فرشتے، آخرت، جنت کا تصور اس عمر میں بچوں کو دینا چاہیے۔
اب آپ کا بچہ دوسرے اسٹیج پر قدم رکھ رہا ہے۔ موجودہ دور کے مصائب میں سے ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس عمر میں ہمیں بچے کی اسکولنگ کی فکر ہوجاتی ہے۔ اچھے اسکولوں میں داخلے کا مرحلہ والدین کو سخت ذہنی دباؤ کا شکار رکھتا ہے۔ بہرحال ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان چیلنجز کے ساتھ ہم کیا اپنے مقاصد حاصل کرسکتے ہیں؟ پہلی اہم بات یہ ہے کہ سنت کے مطابق یہ عمر تو صرف پیار ہی پیار کی عمر ہے۔ نماز کی تاکید بھی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ چنانچہ اس عمر میں بچے پر سختی سے گریز کریں۔ بچے کا ہوم ورک نہیں ہوا، وہ ٹیسٹ کے لیے پڑھ نہیں رہا وغیرہ جیسے ایشوز پر اتنے معصوم بچوں پر سختی نہ کریں بلکہ کوشش کریں کہ وہ ان کاموں کو ہلکے پھلکے مشغلے کے طور پر کرنے لگیں۔ اس عمر میں زبردستی کرنے سے بچے کا ہوم ورک تو مکمل ہوجائے گا لیکن وہ ہمیشہ اپنی پڑھائی کو بوجھ سمجھے گا۔ اسی طرح اس کو خود اپنی چیزیں سنبھالنے کی عادت ڈالیں۔ فولڈر بنائیں اور اسکول کے سرٹیفکیٹ اس کے ہاتھ میں دیں کہ وہ خود اپنے فولڈر میں رکھے اور خود اس کو جگہ پر رکھے۔ اس کام کو سیکھنے میں دو سے تین سال لگ سکتے ہیں، لیکن ایک بار بننے والی عادت آگے چل کر بچے اور آپ کے لیے ذہنی سکون کا باعث ہوگی۔ لیکن ان کاموں کو کھیل کے انداز میں سکھائیں اور ڈانٹ ڈپٹ بالکل نہ کریں۔ بچہ ایک نئی دنیا دریافت کررہا ہے، وہ آپ سے مختلف سوال کرے گا۔ اس کو سوال کرنے دیں، یہ نہ کہیں کہ ابھی تم چھوٹے ہو، خاموش ہوجاؤ اور نہ غلط جواب دیں، بلکہ اس کی عقل کے مطابق حقیقت سے قریب ترین جواب دے کر اسے مطمئن کریں۔
بعض والدین جو اپنے بچپن میں اچھا کھانے، اچھا پہننے اور اچھے کھلونے کی حسرتیں رکھتے تھے اور معاشی تنگ دستی کی وجہ سے ان کو اس عمر میں حاصل نہ کرسکے، جب والدین بنتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو خوشحالی عطا فرماتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ بات آجاتی ہے کہ جو حسرتیں ہمیں تھیں وہ ہماری اولاد کو نہ ہوں۔ اب اس موقع پر وہ افراط وتفریط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ بچوں کو ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کے کھانے کھلانے، مہنگے کپڑے پہنانے اور قیمتی کھلونے دینے میں اعتدال سے بڑھ جاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے جو چیزیں آپ فراہم کررہے ہیں بچہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتا ہو۔ اور پھر اہم بات یہ ہے کہ آپ اس کو اپنے احساسِ محرومی کو مٹانے کا ذریعہ نہ بنائیں، اس کی انفرادی شخصیت کے مطابق نشوونما میں اپنا کردار ادا کریں۔ کھلونوں کے معاملے میں ایک اہم بات یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ان کے ذریعے ذہن سازی کی جائے۔ والدین مہنگے کھلونے دلاتے ہیں اور پھر اٹھا کر رکھ دیتے ہیں۔ گویا بچے میں احساسِ محرومی پیدا کرنے کا آغاز آپ نے خود کردیا۔ کھلونا دیتے ہیں اور پھر اس کے آس پاس گھومتے رہتے ہیں کہ کہیں توڑ نہ دے۔ بچے میں خوف اور عدم تحفظ اسی طرح پیدا ہوتا ہے، اور پھر ان سب سے بڑھ کر بچے سے کہا جاتا ہے کہ مہمان بچے آئیں تو کھلونے چھپا دینا۔ اس سے خودغرضی، دوسروں کے جذبات کا خیال نہ کرنا جیسے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ بچے کو سستے کھلونے لے کر دیں، جو نہ ٹوٹیں، اور بچے ان سے خوب کھیلیں اور دوسرے بچوں کو اپنے ساتھ کھلائیں۔ لیکن بچوں کو کھلونوں کے ساتھ آہستہ آہستہ کتابیں پڑھنے کی طرف راغب کریں۔ کتاب ہاتھ میں لے کر انہیں کہانیاں سنائیں۔ اور جب وہ اٹک اٹک کر پڑھنے لگیں تو ان سے ایک دو لائنیں پڑھوائیں۔ دوسروں کے سامنے بڑھ چڑھ کر ان کی تعریفیں کریں تاکہ شوق اور بڑھ جائے۔ کھیل کے ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی یاد رکھیں کہ بچوں کو تنہا نہ چھوڑیں۔ اکیلے، چھپ کر یا دروازہ بند کرکے بالکل کھیلنے نہ دیں۔ غیر محسوس طریقے سے نگرانی کرتے رہیں اور جو غلطیاں نوٹ کریں ان پر انہیں اس طرح سرزنش نہ کریں کہ ’’میں نے تمہیں یہ کرتے ہوئے خود دیکھا ہے‘‘، بلکہ کسی وقت ساتھ لٹاکر پیار سے سمجھائیں کہ بعض بچے ایسے گندے کام کرتے ہیں جو اچھے بچوں کو نہیں کرنے چاہئیں۔
اس عمر میں ہوسکتا ہے کہ آپ کے بچے کے نئے کپڑے میں رنگ لگ جائے، اس کے ہاتھ سے کوئی قیمتی چیز ٹوٹ جائے، وہ کوئی ایسا کام کربیٹھے جسے وہ خود کوئی بڑا کارنامہ سمجھ رہا ہو، حالانکہ وہ کوئی نقصان کرچکا ہو۔ اب آپ اس کے معصوم دل و دماغ کو سامنے رکھ کر ردعمل کا اظہار کریں۔ اگر وہ جوش و خروش سے اپنا کارنامہ بیان کررہا ہو اور آپ اسے ڈانٹنا شروع کردیں یا اپنے نقصان پر کوئی سخت ردعمل ظاہر کریں تو اس سے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ہوگا اور بچہ اس ردعمل کی وجہ ہوسکتا ہے سمجھنے کے بجائے خوف کا شکار ہوجائے۔ یاد رکھیں، بچہ غلطیوں ہی سے سیکھے گا، آپ خود کو کنٹرول کریں اور بچے کو چوم لیں تاکہ کسی چیز کے ٹوٹنے یا خراب ہونے سے اس کے دل میں جو خوف پیدا ہوا ہے وہ زائل ہوجائے، اور پھر اس کو سمجھائیں کہ اگر آپ اس کام کو اس طرح کے بجائے اس طرح کریں گے تو آئندہ یہ پریشانی نہیں ہوگی۔
اس عمر کے بچوں کو آپ کو چائلڈ ایبیوس سے بھی بچانا ہے۔ ان کو ملازم یا ڈرائیور کے ساتھ تنہا نہ چھوڑیں۔ قریبی اہلِ خانہ کے سوا دیگر جان پہچان والوں یا رشتہ داروں پر بھی اندھا اعتماد نہ کریں، اور کسی کے گھر تنہا نہ بھیجیں۔ رشتہ داروں اور دوستوں کے گھر رات رہنے کی اجازت سوچ سمجھ کر دیں۔ بچوں کو سکھائیں کہ وہ کسی سے نہ تو کھانے کی چیز لیں، نہ کسی کی گود میں بیٹھیں۔ دوپہر اور سناٹے کے وقت نہ گھر سے باہر نکلیں، نہ کسی کے گھر جائیں، راستہ بھی سناٹے والا اختیار نہ کریں، بلکہ چہل پہل والے راستے سے آمد ورفت رکھا کریں اور ان کو یہ اعتماد دیں کہ اگر وہ کسی سے کوئی خطرہ یا خوف محسوس کریں تو سب سے پہلے آپ کو بتائیں۔ یہ احتیاطیں تقریباً ہر عمر کے بچوں اور بچیوں کے لیے فائدہ مند ہوں گی۔
سات سے بارہ سال کی عمر، بچوں کی نہایت حساس عمر ہے۔ اس عمر میں بچے عموماً خودسر ہوجاتے ہیں، بات کا پلٹ کر جواب دیتے ہیں، سنی ان سنی کرتے ہیں، کھیل کی طرف ان کا دھیان زیادہ ہوتا ہے۔ اور آج کے دور کا بچہ تو کمپیوٹر اور ٹی وی سے قریب اور آپ سے دور ہونا شروع ہوجائے گا۔ ہوسکتا ہے آپ بھی سوچیں کہ اس کی شرارتوں سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ اسے الیکٹرانک چیزوں کے حوالے کردیا جائے۔ لیکن اب آپ کے لیے نئے چیلنج ہیں اور ان سے نہایت سمجھ داری سے نمٹنا ہے۔ اس وقت کی غلطی آپ کی اور آپ کے بچے کی زندگی پر ہمیشہ اثرانداز ہوگی۔ اس عمر میں بچے کو آپ کی جسمانی قربت کی بہت ضرورت ہے۔ اس کو سونے کے وقت اپنے ساتھ لٹاکر کہانیاں سنائیں، بلکہ اس سے کہیں کہ وہ بھی آپ کو کہانی سنائے۔ ان کہانیوں میں جھوٹ، کسی کو تنگ کرنا، دھوکا دینا جیسی برائیوں کا ذکر نہ ہو، بلکہ انبیاء کی کہانیوں کے ذریعے ایمان اور اخلاقیات کی سوچ دیں اور سچ، ایمان داری، اچھے اخلاق، کسی کے کام آنا جیسے موضوعات منتخب کریں۔ اس عمر میں بچے آئیڈیل بناتے ہیں، وہ اچھے کرداروں کو آئیڈیل بنائیں گے تو ان جیسا بننے کی کوشش کریں گے۔
آپ خود رول ماڈل ہیں، آپ کی شخصیت کا تضاد ساری دنیا سے چھپ سکتا ہے لیکن آپ کے گھر والوں سے نہیں۔ بچے آپ کو اپنا رول ماڈل بنائیں گے۔ آپ اپنے اندر اچھی صفات پیدا کریں۔ خود ٹی وی اور کمپیوٹر کو کم وقت دیں، معیاری پروگرامات دیکھیں اور بچوں کو کم سے کم وقت ان چیزوں کے حوالے کریں۔ ایسی ویب سائٹس متعارف کروائیں جن میں مختلف چیزیں بنانا سکھائی جاتی ہیں۔ اسی عمر میں بچوں کا قرآن ختم کروائیں، دعائیں یاد کروائیں اور ان کو پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ قرآنی قصص سے آگاہی دیں، فرائض کا شعور پیدا کریں اور آہستہ آہستہ پانچوں وقت نماز کی عادت ڈالیں۔
بچے کی عزتِ نفس کا خیال کریں، تم بہت بے وقوفانہ بات کرتے ہو (کتنی معصومانہ باتیں کرتے ہو)، جھوٹ بہت بولنے لگے ہو (یہ بات تو غلط ہوگئی)، تم نے یہ چوری کی ہے (بیٹا کسی چیز کو بغیر اجازت نہیں لیتے)، نکمے اور نالائق ہو (کیا کام میں دل نہیں لگ رہا جبھی بار بار غلطی ہورہی ہے)۔ جملوں کو تھوڑا ردوبدل کرکے ہم بچے کی بہتر تربیت کرسکتے ہیں۔ بچوں کے دوستوں پر، اور ان کے گھر کے ماحول پر بھی نظر رکھیں اور بری صحبت سے اپنے بچوں کو بچائیں۔
بارہ سے سترہ سال:
یہ عمر اصل میں اُس تربیت کی عکاس ہے جو آپ نے پچھلے بارہ سال میں کی۔ اب پچاس فیصد معاملات یا تو آپ کے ہاتھ میں ہیں یا آپ کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ اس عمر میں بچے اپنی علیحدہ شخصیت کا ادراک کرنے لگتے ہیں۔ اس عمر میں بچہ شعور کے مراحل تیزی سے طے کرتا ہے، لہٰذا اس دور کے تقاضوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اب بچے کے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ اس کا اعمال نامہ لکھنے کا آغاز ہوچکا ہے۔ وہ اپنے ہر قول وفعل کا اللہ کے حضور جواب دہ ہے۔ اسی عمر میں بچے کو قرآن ترجمے سے اور سمجھ کر پڑھنے کی طرف راغب کریں اور روزمرہ کے فقہی مسائل سے آگاہی دیں۔ بچیوں کو ستر وحجاب کی طرف حکمت کے ساتھ راغب کریں۔
اب آپ بچے کے مربی بھی ہیں اور دوست بھی۔ اس سے اسکول کی، اس کے دوستوں کی، کھیل میں ہار جیت کی، غرض ہر طرح کی باتیں کریں۔ اس کی ہنسنے والی باتوں پر اس کے ساتھ ہنسیں، جن باتوں پر وہ دکھی ہو، اس سے شییر کریں۔ اس کے دوستوں اور سہیلیوں کے والدین سے بھی تعلقات قائم کریں اور اس کو ایسی اہمیت دیں جیسے گھر کے کسی بڑے فرد کو اہمیت دی جاتی ہے، یہاں تک کہ اہم معاملات اس کے سامنے ڈسکس کریں، اس کا مشورہ سنیں اور اہمیت دیں۔
ایک اور اہم بات جو اس ضمن میں ڈسکس کرنا ضروری ہے وہ بچوں کے رزلٹ پر والدین کا ردعمل ہے۔ بعض والدین کے لیے یہ بات کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہوتی کہ ان کا بچہ پڑھائی میں کسی سے پیچھے ہو۔ چنانچہ اگر وہ فرسٹ نہیں آیا تو اس کو ڈانٹنا اور یہ احسان جتانا کہ وہ اس کی تعلیم، لباس اور کھانے پینے پر اتنا خرچ کررہے ہیں لیکن بچہ ان کی امیدوں پر پورا نہیں اتر رہا۔ یہ انتہائی منفی طرزعمل ہے جس کے منفی نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ آپ کو اہمیت صرف اس بات کو دینی چاہیے کہ بچے نے محنت کی ہے۔ ہر انسان کی سیکھنے اور سمجھنے کی استعداد مختلف ہوتی ہے، پڑھائی میں اچھے رزلٹ کو ایشو نہ بنائیں، بہت سے ذہین لوگ اپنی عملی زندگی میں اس قدر کامیاب نہیں ہوتے جتنی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ لہٰذا آپ اس بات پر توجہ دیں کہ بچے میں کس کام کو کرنے کی استعداد دوسروں سے بڑھ کر ہے، ہوسکتا ہے وہ اچھا لکھاری ہو، اچھا اسپورٹس مین ہو، اس کی ڈرائنگ اچھی ہو۔ ان چیزوں میں اس کی حوصلہ افزائی کرکے اس کی تعلیمی استعداد کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
آخری مگر اہم ترین بات دعا ہے۔ اولاد کے لیے والدین کی دعا رد نہیں ہوتی۔ جس بچے کی جس بات کی آپ اصلاح کرنا چاہتے ہیں اس کا نام لے کر اللہ سے دعا کریں۔ اللہ آپ کی مدد فرمائیں گے‘ ان شاء اللہ۔