زبان کے آگے خندق ہے، سیاسی بصیرت نہیں

111

2 نومبر کو جو ہو سو ہو، لیکن اس سے پہلے ہمارے سیاست دانوں کی تو تڑاخ اور بازاری زبان نے مہذب سیاست کو ایسا داغ دار کر دیا ہے کہ بلاشبہ ملک کے سنجیدہ عوام شرم سار ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیا اب یہی ہماری سیاست کا طرز عمل رہے گا اور ہماری اگلی نسلیں یہی راستہ اختیار کریں گی۔ اخلاق سے گری زبان کے علاوہ تحریک انصاف کے قائد اور حکومت کے وزراء نے ایک دوسرے پر ایسے سنگین الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دی ہے کہ جن سے سیاسی اختلاف اور نجی دشمنی کو بھی شرم آئے۔ عمران خان، وزیر اعظم نواز شریف کو ڈاکووں کا کپتان قرار دے کر ان پر کھلم کھلا بھارت نوازی کا الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نواز شریف پاکستان کے خاطر نہیں بلکہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے انڈو، اسرائیلی لابی کو خوش کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں نواز شریف کے ایک ترجمان نے عمران خان پر یہودی لابی سے گٹھ جوڑ کا الزام لگایا۔ اور تو اور تحریک انصاف کے سابق صدر جاوید ہاشمی نے الزام لگایا ہے کہ عمران خان غیر ملکی قوتوں کے کنٹرول میں ہیں اور تحریک، غیر ملکی طاقتوں کے اشاروں پر چلتی ہے۔
اس سے پہلے پاکستان میں سیاست دانوں پر اس نوعیت کے الزامات کبھی نہیں لگائے گئے۔ اگر پاکستان کی سیاست کی یہی ریت رہی تو پھر سیاست کا اللہ ہی حافظ ہے۔
انصاف کی بات ہے کہ تو تڑاخ کے سلسلہ کی شروعات تحریک انصاف کے قائد نے کی ہے۔ 2014کے دھرنے کے دوران عوام نے انہیں کنٹینر پر چڑھ کر وزیر اعظم کو اوئے نواز شریف کہتے ہوئے سنا تھا۔ اب، 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کے پروگرام کے اعلان کے بعد عمران خان کی زبان کی تیزابیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کی رائے میں عمران خان کی زبان کی تیزابیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سخت مایوسی کا شکار ہیں اور قدرے بدحواس ہیں۔ انہوں نے کشتیاں جلا کر اسلام آباد جانے کا تو اعلان کیا ہے لیکن انہیں علم نہیں کہ آیا وہ اسلام آباد کو بند کرانے کے لیے دس لاکھ کے قریب عوام کو اپنے ساتھ لا سکیں گے یا نہیں اور اگر یہ اسلام آباد کو بند کرانے میں کامیاب بھی ہو گئے اور اس کے باوجود میاں نواز شریف نہ جھکے اور انہوں نے استعفا نہ دیا تو پھر کیا کریں گے، ان کا اگلا قدم کیا ہوگا؟ اس بارے میں انہوں نے آیا سوچا ہے یا نہیں؟ یہ کسی کو علم نہیں۔
گو عمران خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کو اسلام آباد بند کی تحریک میں شمولیت اختیار کرنے پر رضا مند کر لیا ہے لیکن انہیں پیپلز پارٹی کے رویہ سے سخت مایوسی ہے۔ اس میں پیپلز پارٹی کا قصور نہیں بلکہ خود عمران خان کا قصور ہے جنہوں نے، پیپلز پارٹی اور حزب مخالف کی دوسرے جماعتوں سے صلاح مشورہ کے بغیر اسلام آباد بند کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان کا یہی رویہ، ان کی سیاسی بصیرت پر سوالیہ نشان بنتا ہے۔
عمران خان کی مایوسی کی ایک بڑی وجہ خود تحریک انصاف میں، نوجوانوں اور پرانے آزمودہ رہنماوں کے درمیان اختلافات کی خلیج ہے۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ان کے ارد گرد ایسے موقع پرست رہنما ہیں جو مقبولیت کی اونچی لہروں میں تو ان کے ساتھ ہیں لیکن، بحران کی صورت میں ڈوبتی ہوئی کشتی سے چھلانگ لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں کریں گے۔ ان کی تحریک کے کارکنوں میں اس بات کا شدید احساس ہے کہ جس طرح اسلام آباد میں ناکام دھرنے کے دوران، عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کیا تھا جو رو بہ عمل نہ آ سکا اور ٹھپ پڑ گیا تھا، اسی طرح اسلام آباد بند کا فیصلہ صایب فیصلہ نہیں، خاص طور پر اس وقت جب ملک، ہندوستان کے ساتھ شدید کشیدگی کے دور سے گزر رہا ہے اور سرحدوں پر سخت خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اس وقت حکومت کو مفلوج کرنے سے، سرحد کے اس پار مخاصمت اور پاکستان کو بین الاقوامی تنہائی میں مبتلا کرنے کی کوشاں قیادت کو تقویت پہنچے گی۔
عمران خان کے اس بیان کو بہت اہمیت دی جارہی ہے کہ اگر میاں نواز شریف نے استعفا نہ دیا اور اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش نہ کیا اور اس کے نتیجے میں کوئی تیسری قوت آگئی تو اس کی ذمے داری نواز شریف پر ہوگی۔ یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا عمران خان کو یقین ہے کہ نواز شریف کے گھٹنے نہ ٹیکنے کی صورت میں تیسری قوت آئے گی۔
عمران خان کو ورلڈ کپ جیتے ہوئے دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے لیکن اس کا غرہ ان پر ابھی تک ایسا طاری ہے کہ سیاست کو بھی کرکٹ کا کھیل سمجھتے ہیں اور کرکٹ کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ پچھلے دھرنے میں امپائر کی انگلی اٹھنے کی وارننگ تو ناکام رہی لیکن اب انہوں نے اسلام آباد کے دھرنے کو سیاسی میچ قرار دیا ہے۔ انہوں نے حکومت کی ٹیم تشکیل کر دی ہے، جس میں انہوں نے آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور اسفند یا ر ولی خان کو بھی شامل کر دیا ہے، اور پھر کہتے ہیں کہ نواز شریف کو وہ نہ بادشاہ مانتے ہیں اور نہ وزیر اعظم۔ ان کا کہنا ہے کہ میں مجرم کو وزیر اعظم نہیں مان سکتا۔ لوگ یہ پوچھ سکتے ہیں کہ کسی عدالت یا ٹریبونل کی طرف سے نواز شریف کو مجرم قرار دیے بغیر وہ انہیں کیسے مجرم قرار دے سکتے ہیں۔ پھر لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ جب نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے تو پھر اسلام آباد کو بند کرنے کا کیا جواز ہے؟ اور کیا سپریم کورٹ، اسلام آباد کے بند کے دوران اپنے دروازے کھول کر اس مقدمہ کی سماعت کرنے، اور انصاف دینے کے قابل ہوگی؟
دوسری جانب بہت سے لوگوں کی رائے میں حکومت کی طرف سے اپنی انتظامی قوت کے بل پر معرکہ آرائی کا عزم خطرات سے بھرا ہوا ہے۔ اس وقت دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ نواز شریف تمام سیاسی قوتوں کو یک جا کر کے ان سے صلاح مشورہ کر کے، معرکہ آرائی سے کوئی راہ نجات تلاش کریں۔ ملک اور جمہوریت کے مستقبل کی خاطر، لچک دکھا کر، حکومت یقیناًعوام میں سیاسی بصیرت پر تعریف و توصیف سے سرفراز ہوگی۔