کون جیتا، کون ہارا؟

136

پاناما لیکس کے بارے میں تحقیقات کے لیے، ٹرمز آف ریفرنس طے ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ نے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کاجو فیصلہ کیا ہے اس کے فوراً بعد، تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے، اسلام آباد بند کرنے کا فیصلہ ترک کرنے، اور جشن اور یوم تشکر منانے کا جو اعلان کیا ہے اس پر عام طور پر لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ کون جیتا اور کون ہارا؟ یہ سوال اس وجہ سے بھی نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے کہ خود عمران خان نے اسلام آباد بند کو ایک اہم میچ قرار دیا تھا اور انہوں نے اپنے کارکنوں کو کھلاڑی قرار دیا تھا اور اپنی مخالف ٹیم کا بھی اعلان کردیا تھا، نواز شریف کپتان اور ان کی ٹیم میں زرداری، مولانا فضل الرحمان اور اسفندیار ولی خان شامل کیے تھے۔ بلا شبہ سیاسی معرکہ آرائی کو یوں کرکٹ کا میچ قرار دینا نہایت غیر سنجیدہ عمل تھا اور اسی بنیاد پر یہ سوال کہ کون جیتا کون ہارا، اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔
ایک بات جو ملک کے سنجیدہ لوگ شدت سے محسوس کرتے ہیں وہ یہ کہ جب سے دھرنوں اور دارالحکومت پر چڑھائی کی تحریکوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے، ملک کی سیاست میں عدم برداشت اور ایک دوسرے پر نہ صرف سنگین الزامات کی کیچڑ اچھالنے، بلکہ گالم گلوچ کی افسوس ناک روایت پروان چڑھتی نظر آتی ہے۔ وہ دن ہماری سیاست سے معدوم ہو تے نظر آتے ہیں جب، سخت اختلافات کے باوجود سیاست دان، آپس میں نہایت مہذب انداز سے مکالمہ کرتے تھے اور تہذیب کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔
بہت سے لوگوں کے نزدیک، عمران خان کے ان بلند بانگ دعوں کے بعد کہ وہ دس لاکھ افراد کا طوفان لے کر دارالحکومت میں داخل ہوں گے اور حکومت کو یکسر مفلوج بنا دیں گے اور پچھلے کئی دنوں سے بنی گالا کے نیچے کارکنوں اور پولیس کی جھڑپوں اور خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں ایک لشکر کی اسلام آباد کی جانب پیش قدمی کے پیش نظر، اچانک اسلام آباد بندکرنے کا فیصلہ، ترک کرنے کا اقدام، عمران خان کی شکست ہے جسے وہ اپنی جیت قرار دے کر یوم تشکر منانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ عمران خان نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر اپنی شادمانی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے مطالبے کے مطابق عدالت عظمیٰ میں میاں نواز شریف کی ’’تلاشی‘‘ شروع ہوگئی ہے۔ لغت میں احتساب کے لیے ’’تلاشی‘‘ کی اصطلاح ایک نہایت بھونڈی اصطلاح ہے۔ یہ عمران خان کی عجیب و غریب منطق ہے۔ ابھی عدالت عظمیٰ میں، حکومت اور حزب مخالف نے اپنے ٹرمز آف ریفرنس پیش نہیں کیے اور نہ عدالت عظمیٰ نے ان پر اتفاق کیا ہے اور نہ کوئی کمیشن قائم ہوا ہے، اسے ’’تلاشی‘‘ کا عمل کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ سراسر اپنے کارکنوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرنا ہے اور ملک کے عوام کو بھی گم راہ کرنا ہے۔
سوال یہ کیا جارہا ہے کہ عمران خان نے اچانک دھرنا ختم کر کے جشن منانے اور یوم تشکر منانے کا کیوں اعلان کیا؟۔ یہ کہا جارہا ہے کہ عمران خان نے یہ محسوس کیا کہ وہ کامیاب دھرنے اور اسلام آباد کو بند کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر پچاس ہزار افراد بھی اسلام آباد پہنچ جاتے تو عمران خان دھرنے کے بجائے جشن کا اعلان نہ کرتے۔ دوسرے، پہلے دھرنے میں ان کے ساتھی، ڈاکٹر طاہر القادری بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے اور وہ تن تنہا رہ گئے تھے۔ پھر انہوں نے یہ دیکھا کہ انتظامیہ کسی صورت میں بھی ان کے دھرنے اور اسلام آباد بند کرانے کی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دے گی اور انہوں نے راست ٹکر لی تو بڑے پیمانہ پر خون خرابہ ہونے کا خطرہ ہے۔
عمران خان کا یوم تشکر منانے کا جواز اس لحاظ سے حق بجانب ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں تحریک انصاف خفت سے بچ گئی اور خون خرابے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ عمران خان کا جشن قدرے قبل از وقت نظر آتا ہے کیوں کہ جس کو یہ وزیر اعظم کی ’’تلاشی‘‘ قرار دے رہے ہیں وہ محض ان کی خوش فہمی ہے۔ ابھی پاناما لیکس کی تحقیقات اور اس مسئلے کے حل کے لیے بہت طویل سفر ہے۔ ظاہر ہے عدالت عظمیٰ جو بھی کمیشن قائم کرے گی وہ خود مالی معاملات کے بارے میں تفصیلات جمع نہیں کر سکے گا اور خود تفتیش نہیں کر پائے گا اور لا محالہ اسے اس مقصد کے لیے کسی ادارے کو تعینات کرنا ہوگا۔ یہ سرکاری ادارہ یہ تفتیشی عمل کتنی جلد مکمل کر سکے گا اس کے بارے اس وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے عدالت عظمیٰ کو یقین دلایا ہے کہ وہ کمیشن سے پورا تعاون کریں گے اور جو بھی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ہوگا اسے قبول کریں گے، لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم کے بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے حکومت ہی کے ذریعے بیرونی ممالک کے ساتھ رابطہ قائم کیا جائے گا۔ بہت سے لوگوں کو خطرہ ہے کہ اس عمل میں کہیں پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر اعظم گیلانی کے سوئز بینک کو خط نہ لکھنے کے کیس کی طرح ایک طویل تعطل پیدا نہ ہو جائے۔
پھر جب مرحلہ، پاناما کی حکومت سے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے آف شور بینک اکاونٹس کی تفصیلات معلوم کی جائیں گی تو پاناما کی حکومت اس سلسلے میں اپنی بے بسی کا اظہار کر سکتی ہے کیوں کہ لا فرم موساک فونسیکا کے پاس یہ آف شور اکاونٹس ہیں جو صرف پاناما میں ہی نہیں بلکہ اس کے دنیا کے 35ممالک میں خفیہ اکاونٹس ہیں جن میں نیوادا، ہانگ کانگ اور برٹش ورجن آئی لینڈز شامل ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے کمیشن کو ان تمام 35ممالک کی حکومتوں سے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے اکاونٹس کے بارے میں اور اگر اس کے دائرہ کار میں دوسرے پاکستانیوں کے خفیہ اکاونٹس کی تحقیقات بھی شامل ہوئی تو ان کے بارے میں بھی تفصیلات کے حصول میں ایک خاصا طویل عرصہ لگے گا۔
اس وقت پاناما اور پاکستان کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں جس کے تحت حکومت پاکستان خفیہ اکاونٹس کے بارے میں معلومات حاصل کرسکے۔ وہ لوگ جن کا یہ خیال ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے آف شور اکاونٹس کے بارے میں ساری تفصیلات اگلے عام انتخابات سے پہلے منظر عام پر آجائیں گی، وہ بلا شبہ خام خیالی میں مبتلا ہیں۔