میاں صاحب آپ کس کو دعوت دے رہے ہیں؟

151

امریکا کے صدارتی انتخاب میں، ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے تین ہفتوں کے بعد، پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بدھ کے روز اچانک منتخب صدر کو ٹیلی فون کر کے ان کی فتح پر مبارک باد پیش کی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا نے اس بات پر سخت تعجب کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کی وزارت اطلاعات نے ٹرمپ اور پاکستانی وزیر اعظم کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت کی لفظ بہ لفظ تفصیل شائع کی ہے۔ عام طور پر اس عمل کی روایت نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کبھی میاں نواز شریف سے ملاقات نہیں کی لیکن حکومت پاکستان کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’’صدر ٹرمپ نے کہا، وزیر اعظم نواز شریف آپ بڑی شہرت کے مالک ہیں۔ آپ بہتریں شخص ہیں۔ آپ حیرت انگیز کام کر رہے ہیں، جو ہر طرح سے عیاں ہے۔‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کبھی پاکستان نہیں گئے لیکن انہوں نے نواز شریف سے کہا کہ آپ کا ملک لاجواب ہے جو بے حد مواقعوں سے مالا مال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی بے حد ذہین افراد ہیں۔ غالباً ٹرمپ کو اس کا علم نہیں کہ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جن پر انہوں نے انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی امریکا میں آمد پر پابندی عائد کر دیں گے، خاص طور پر ان ملکوں کے مسلمانوں پر جو اسلامی دہشت گردوں کے گڑھ ہیں اور ان ملکوں میں ٹرمپ کے دعوے کے مطابق پاکستان بھی شامل ہے۔
میاں نواز شریف سے ٹیلی فون پر گفتگو میں وعدہ کیا کہ میں متنازع مسائل کے حل تلاش کرنے کے لیے ہر کردار ادا کرنے کے لیے، جو آپ چاہتے ہیں تیار ہوں۔ گو انہوں نے مسئلہ کشمیر کا ذکر نہیں کیا لیکن غالباً ان کا اسی طرف اشارا تھا، لیکن وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہندوستان کبھی بھی اس مسئلے پر مصالحت یا ثالثی کے لیے تیار نہیں ہوگا اور ان کی پیش کش کو یکسر ٹھکرا دے گا۔
انتخابی مہم کے دوران، پاکستان کے بارے میں، ٹرمپ کا رویہ ایک معما رہا ہے۔ انہوں نے پاکستان کا اس انداز سے تعریفی ذکر نہیں کیا جیسا کہ میاں نواز شریف سے ٹیلی فون پر گفتگو میں کیا۔ جب بھی انہوں نے پاکستان کا ذکر کیا، ہندوستان کے تناظر میں کیا جیسے کہ ایک بار ٹرمپ نے کہا کہ ’’پاکستان کو ہندوستان کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔ اور آپ کو ہندوستان سے معاملات کرنے ہوں گے۔ اس سال 17 جنوری کو ٹرمپ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’یہ بات سمجھ لیجیے کہ پاکستان ہمارا دوست نہیں ہے۔ ہم نے اسے اربوں ڈالر امداد میں دیے ہیں۔ اس کے جواب میں ہمیں کیا ملا؟ سوائے غداری اور بے عزتی کے۔‘‘
امریکا میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے نزدیک پاکستان کی اہمیت، افغانستان میں امن کے قیام کے نقطہ نگاہ سے ہے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ کہ انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ اور ان کی مد مقابل ہیلری کلنٹن نے افغانستان کا کوئی ذکر نہیں کیا، جہاں گزشتہ پندرہ سال سے امریکا جنگ میں الجھا ہوا ہے۔ جس میں امریکا کے 3559 فوجی اور فوج سے متعلق امریکی شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور جنگ پر بیس کھرب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں امریکا کی سات ہزار فوج تعینات ہے اور اس کے علاوہ امریکا کے چھ ہزار خصوصی فوج کے دستے برسر پیکار ہیں۔ ٹرمپ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج کو برقرار رکھنے کی ایک بڑی وجہ پاکستان کا جوہری اسلحہ ہے۔ گو اس کی انہوں نے وضاحت نہیں کی لیکن عام خیال یہی ہے کہ ان کا اشارہ اس اندیشہ کی طرف تھا کہ پاکستان کا جوہری اسلحہ جہادیوں کے ہاتھوں میں جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو جوہری اسلحہ جہادیوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے ہم ہندوستان کی مدد چاہیں گے۔ انتخابی مہم کے دوران، فوکس نیوز پر ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ دو منٹ کے اندر اندر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے والے، شکیل آفریدی کو جیل سے آزاد کرا سکتے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے امریکا کے ہندوستانیوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے کہا تھا ’’ٹرمپ کی صدارت کے دور میں، ہندوستان اور امریکا بہترین دوست ہوں گے۔ ہندوستان سے زیادہ اور کسی سے تعلقات ہمارے لیے اہم نہیں ہوں گے۔‘‘ انتخابی فتح کے بعد اپنی کابینہ کے انتخاب میں ٹرمپ کا ہندوستان کی طرف جھکاؤ نمایاں ہے۔ انہوں نے ایک ہندوستانی نژاد خاتون۔ ساؤتھ کیرولینا کی گورنر، نکی ہیلی کو اقوام متحدہ میں امریکا کی مندوب مقرر کیا ہے اور ایک اور ہندوستانی نژاد خاتون، سیما ورما کو میڈی کیر کا سربراہ نامزد کیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ تاریخی اعتبار سے ری پبلکن پارٹی کے پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں۔ خاص طور پر اس زمانے میں جب افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جہاد میں پاکستان بڑھ چڑھ کے حصہ لے رہا تھا اور امریکا اپنے سیاسی اور فوجی مقاصد کے لیے بھر پور مالی اور فوجی امداد فراہم کر رہا تھا۔ لیکن 9/11 کے بعد افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکا کی جنگ میں، طالع آزما جنرل مشرف کی طرف سے پاکستان کو دھکیلنے کے فیصلہ کے باوجود، ری پبلکن پارٹی کی انتظامیہ اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا دور شروع ہوا۔ مشرف نے امریکی مداخلت اور مطالبات کا ایسا دروازہ کھول دیا تھا کہ امریکی یہ سمجھنے لگے تھے کہ پاکستان کو جو حکم دیا جائے اس پر فوری عمل لازمی ہے۔ ایک طرف امریکیوں کو ڈرون حملوں کی کھلی آزادی تھی اور دوسری جانب پاکستان پر سخت دباؤ تھا کہ وزیرستان میں حقانی گروپ کا قلع قمع کرنے کے لیے بھر پور فوجی کارروائی کی جائے۔ امریکی مطالبات کا ایک پہاڑ تھا جو کھڑا ہو گیا۔
بلا شبہ، میاں نواز شریف کے ساتھ ٹیلی فون پر ٹرمپ کی تعریف و توصیف بھری گفتگو نہایت شیریں تھی، اور ممکن ہے نواز شریف سمیت پاکستان کے بہت سے لوگو ں کو امید ہوگی کہ ٹرمپ کے دور میں امریکا کے ساتھ پاکستان کی تمام تر کشیدگیاں دور ہو جائیں گی لیکن صحیح حقیقت تو اسی وقت اجاگر ہوگی جب۔ 20 جنوری کو ٹرمپ مسند صدارت سنبھالیں گے اور دیکھنا یہ ہوگا کہ ہندوستان کے ساتھ بقول ان کے اہم ترین تعلقات کے وعدوں کو وہ کیسے عملی جامہ پہنائیں گے، پاکستان کے جوہری پروگرام کے خلاف امریکا کی خواہشات اور ہندوستان کے عزائم کے حصول کے سلسلے میں کیا حکمت عملی اختیار کریں گے اور پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کے لیے ہندوستان کی سر توڑ کوششوں میں کس حد تک اعانت کرتے ہیں۔ اُس وقت پاکستان میں لوگ پوچھیں گے ’’میاں صاحب آپ کس کو دعوت دے رہے تھے؟‘‘