محبتوں ، نفرتوں اور خساروں سے بھر پور پاک افغان تعلقات

162

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات نے پھر ایک بار زبردست پلٹا کھایا ہے۔افغانستان کے صدر اشرف غنی گزشتہ ہفتہ امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کی وزارتی کانفرنس کا ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مشترکہ طور پر افتتاح کرتے ہوئے پاکستان پر برس پڑے۔کہنے لگے کہ ہمیں سرحد پار پاکستان سے ہونے والی دہشت گردی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے افغانستان کی ترقی کے لیے50 کروڑ ڈالر کی امداد کا جو وعدہ کیا ہے اسے چاہیے کہ یہ رقم وہ پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے خرچ کرے۔ صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ کچھ عناصر اب بھی دہشت گردوں کو پناہ دے رہے ہیں، طالبان نے حال میں کہا تھا کہ اگر انہیں پاکستان میں محفوظ پنا گاہ نہ ملتی تو وہ ایک مہینے بھی نہیں چل پاتے۔ انہوں نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ افغانستان کے خلاف غیر علانیہ جنگ کر رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایک ایشیائی یا بین الاقوامی تنظیم ان دہشت گرد کارروائیوں پر کڑی نگاہ رکھے جو پاکستان کی شہہ کہی جاتی ہیں۔
ایسے موقعے پر جب پاکستان کنٹرول لائن پر ہندوستان کی طرف سے فوجی کشیدگی کا سامنا کر رہا ہے، اور اس کی آڑ میں پاکستان کو دہشت گردوں کا گڑھ ثابت کرنے کے جتن کر رہا ہے، بین الاقوامی کانفرنس میں اشرف غنی کا پاکستان پر افغانستان میں دہشت گردی کا الزام عاید کرنا عمداً پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے ستونوں کو مسمار کرنے کے مترادف ہے۔ بلاشبہ امرتسر میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں زبردست پلٹا کھایا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے اس کے پڑوسی افغانستان کے ساتھ تعلقات ایک عجیب و غریب نشیب و فراز سے دوچار رہے ہیں، جس کی نظیر عصری تاریخ میں مشکل سے ملتی ہے۔ گو اب یہ بات تاریخ کے اوراق میں دب گئی ہے لیکن یہ حقیقت، دونوں ملکوں کے تعلقات کی منفی بنیاد بنی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب ستمبر 1947ء میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی قرار داد پیش ہوئی، تو جنرل اسمبلی میں افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
1948میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات تو قائم ہو گئے لیکن ایک سال بعد ہی افغانستان کے سرحدی دیہات پر پاکستانی فضائی کی بمباری نے تعلقات کو کشیدگی کی کھائی میں دھکیل دیا۔ اس وقت افغان شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے ظاہر شاہ نے اعلان کیا کہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتا۔ ڈیورنڈ لائن1893ء میں برطانوی راج کے کرنل مورٹیمر ڈیورنڈ اور افغانستان کے امیر عبد الرحمان کے درمیان، برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان سرحد کے طور پر کھینچی گئی تھی۔ پاکستان کو47میں آزادی کے بعد ڈیورنڈ لائن کا سمجھوتا ورثے میں ملا تھا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان اس سمجھوتے کی باقاعدہ توثیق نہیں ہوئی، اوراسی وجہ سے افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو باقاعدہ بین الاقوامی سرحد کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا۔ اور درحقیقت یہی بنیادی مسئلہ ہے جو بار بار دونوں ملکوں کے رشتوں میں زہر گھولتا رہاہے۔
1955 ء میں جب وزیر اعظم سردار داؤد نے پختونستان کا نعرہ بلند کیا اور دونوں طرف سے ایک دوسرے کی فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے۔ ان کشیدہ حالات میں سرحد بند ہونے سے افغان معیشت پر سخت زک پڑی اور نتیجہ یہ کہ 1963ء میں سردار داود کو مستعفی ہونا پڑا۔ شاہ ایران کی مصالحت کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی ختم ہوئی اور تعلقات بحال ہوئے۔ اس دوران سردار داؤد دوبارہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے، اور مغربی ملکوں کی شہہ پر انہوں نے اپنے برادر نسبتی ظاہر شاہ کا تخت الٹ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس زمانے میں سردار داؤد کو پاکستان مدعو کیا۔ اسلام آباد میں سردار داود کی بات چیت سے سویت یونین اور افغان کمیونسٹوں کو اس قدر تشویش ہوئی کہ انہوں نے سردار داود کی واپسی پر ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور انہیں شاہی محل میں قتل کردیا۔ اس کے بعد جب سویت یونین نے افغانستان کے راستے پاکستان کی سرحدوں اور بلوچستان کے ساحل تک پہنچنے کے لیے افغانستان پر پر فوج کشی کی تو افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا جس کے دوران پاکستان نے سویت یونین کے خلاف جنگ میں مجاہدین کی بھرپور حمایت اور مدد کی۔ بلا شبہ اس جنگ میں سعودی عرب اور مغربی طاقتوں نے مجاہدین کی مالی اور فوجی اعانت کی، جس کے نتیجہ میں سویت فوج کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ دور پاکستان کا افغانستان سے قریب ترین تعلقات کا دور تھا۔ سویت فوج کی پسپائی کے بعد بدقسمتی سے مجاہدین کی تنظیموں میں باہمی معرکہ آرائی شروع ہو گئی اور پاکستان ان تنظیموں کے درمیان کشمکش میں بری طرح سے اُلجھ گیا۔ گو اس دوران طالبان نے پاکستان کی مدد سے کابل اور ملک کے ایک حصہ پر اپنی حکومت قائم کر لی لیکن ہندوستان جو کمیونسٹ نواز افغان حکومت کو تسلیم کرنے والا دُنیا کا واحد ملک تھا افغانستان میں راندہ درگاہ ہوگیا تھا، ہندوستان نے اس دوران طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے شمالی اتحاد سے گٹھ جوڑ شروع کردیا اور اس کی بھر پور مالی اعانت شروع کردی، اور پھر جب2001ء میں امریکی قیادت میں مغربی قوتوں نے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان کو معزول کر دیا تب ہندوستان کو کھلا میدان مل گیا اور اس نے منظم طریقے سے افغانستان میں اپنا سیاسی اور فوجی اثر پھیلانا شروع کردیا۔ ہندوستان نے افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے قریب ہوائی اڈوں، سڑکوں، بجلی کے کارخانوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کے لیے750 ملین ڈالر کی امداد دی جو اب 2 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ یہ پاکستان کو حصار میں لینے کی حکمت عملی ہے جس کے نتیجے میں عملی طور پر افغانستان سے پاکستان کے اثر و رسوخ کی پسپائی شروع ہوئی۔ اس زمانے میں ملک کے فوجی حکمران پرویز مشرف نے امریکا کی ایک دھمکی پر آنکھ بند کر کے افغانستان کی جنگ میں پاکستان کو دھکیلنے کا مہلک فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے39 ہزار شہری اور22ہزار فوجی جاں بحق ہوئے۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان کا ایک شہری بھی ہلاک نہیں ہوا لیکن ہندوستان نے نہ صرف افغانستان میں سیاسی اور فوجی طورپر تسلط جما لیا ہے بلکہ امریکا سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے جس میں جوہری سمجھوتا بھی شامل ہے۔