ادب کی موت

233

ایک ایسی دنیا میں جہاں انسانوں کی زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہوں، ادب کی موت پر گفتگو ایک عیاشی محسوس ہوتی ہے، لیکن ادب اور زندگی کا تعلق بہت گہرا ہے، اگر ادب مرگیا ہے یا مرنے والا ہے تو ہمارے ذرائع ابلاغ کی زبان میں اس ”Event“ کو نظرانداز کرنا ٹھیک نہیں۔ اس لیے کہ ادب مر گیا تو زندگی بھی زندگی نہیں رہے گی۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ادب اور اس کی موت پر گفتگو کا سبب کیا ہے؟
دراصل اس کی وجہ معروف افسانہ نگار آصف فرخی کی وہ تقریر ہے جو انہوں نے حال ہی میں آرٹس کونسل میں منعقد ہونے والی اردو کانفرنس میں کی ہے۔ اس تقریر میں آصف فرخی نے کہا ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ادب مر گیا ہے، انہیں چاہیے کہ وہ پڑھنا شروع کریں۔ انہوں نے کہا کہ عسکری صاحب نے ادب کی موت کا اعلان ضرور کیا تھا مگر ادب مرا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادب زندہ ہے۔ جو لوگ ادب کی موت کی بات کرتے ہیں وہ ادب پڑھتے نہیں ہیں۔ کتابیں شائع ہورہی ہیں مگر پڑھنے والے موجود نہیں۔ انہوں نے افسوس کے ساتھ کہا کہ ایک وقت تھا کہ قومی زندگی کا بیانیہ ادبی شخصیات تحریر کرتی تھیں، مگر اب ذرائع ابلاغ یہ کام کررہے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق آصف فرخی نے بعض شاعروں، افسانہ نگاروں اور نقادوں کے نام بھی لیے اور انہیں اردو ادب کی زندگی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔
اردو میں ادب کی موت کے اعلان کا ایک پس منظر ہے۔ اس پس منظر کا ایک حوالہ خود آصف فرخی نے پیش کردیا ہے کہ دراصل عسکری صاحب نے پچاس ساٹھ سال پہلے اعلان کیا تھا کہ ادب کی موت واقع ہوچکی ہے۔ عسکری صاحب معمولی آدمی نہیں تھے، وہ اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد تھے۔ ان کا مطالعہ قاموسی یا Encyclopedic تھا۔ عسکری مایوس اور قنوطی بھی نہیں تھے۔ انہیں خوامخواہ کی بیان بازی اور لوگوں کو چونکانے کا شوق بھی نہیں تھا۔ چناں چہ انہوں نے ادب کی موت کا اعلان کیا تھا تو اس کا کچھ تو مطلب ہوگا۔ عسکری صاحب کے بعد اُن کے شاگردِ رشید سلیم احمد نے بھی ادب کی موت کا اعلان کیا، لیکن سلیم احمد کے نزدیک ادب کی موت کا مفہوم کیا تھا؟ اس سلسلے میں سلیم احمد کے شاگردِ رشید احمد جاوید صاحب کی بات سنیے۔ انہوں نے فرائیڈے اسپیشل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا:
”جب انہوں نے (یعنی سلیم احمد نے) یہ بات کہی تھی تو اُس وقت میں بھی موجود تھا…. انہوں نے یہ بات ایک سلسلہ¿ کلام میں کہی تھی۔ یہ سلسلہ¿ کلام شروع ہوتا ہے نطشے سے۔ نطشے نے کہا تھا: ”خدا مرگیا ہے“۔ اس پر سلیم احمد کی تعبیر کے مطابق نطشے کہہ رہا ہے کہ وہ آدمی فنا ہوگیا ہے جس کا سب سے بڑا مسئلہ خدا تھا۔ تو دراصل نطشے نے خدا پرست آدمی کی موت کا اعلان کیا۔ اسی طرح اگلا نعرہ لگا کہ ”انسان مر گیا ہے“۔ اس پر سلیم بھائی فرماتے تھے کہ وہ انسان مر گیا جو خود کو اپنا مقصود سمجھتا تھا، یا خود کو مرکزِ کائنات سمجھتا تھا۔ ایک تبدیلی آئی کہ پہلے خدا مرکز کائنات تھی، اس کی موت کا اعلان نطشے نے کردیا، اور اس کی جگہ آدمی کو مرکزِ کائنات بنادیا۔ پھر پتا چلا کہ اب آدمی بھی مرگیا ہے۔ یعنی اب آدمی بھی کائنات مرکز نہیں رہا، تو اس تسلسل میں سلیم احمد نے کہا کہ ”ادب مرگیا ہے“۔ یعنی وہ آدمی غائب ہوگیا جس کے لیے ادب ایک سنجیدہ مسئلہ یا مشغلہ تھا۔ یہ اُن کے اعلان کا انہی کے بیان کردہ الفاظ میں مطلب ہے۔ اس لیے میرے نقطہ نگاہ سے یہ بات بالکل درست ہے کہ ادب کی موت واقع ہوگئی ہے۔ اس بات کو دو چیزوں پر غور کرکے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے: (1) کیا ہماری تہذیب اپنے اصول پر زندہ ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ ہم کہیں گے ہماری تہذیب مر گئی ہے۔ (2) کیا ہماری زبان اپنے Semantics، اپنے معنویاتی بندوبست کے ساتھ، اپنے لسانی اسٹرکچر کے ساتھ، اپنی علامات کے ساتھ زندہ رہ گئی ہے؟ تو ہم کہیں گے کہ نہیں۔ تو جب ہم اپنی تہذیب اور اپنی زبان کی زندگی کا انکار کررہے ہیں تو ادب ان ہی دونوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ”تہذیب مر گئی ہے“ کہنا درست ہو، ”زبان فوت ہوگئی ہے“ کہنا درست ہو اور ان دونوں اموات کی موجودگی میں ہم یہ امکان روا رکھیں کہ ادب زندہ رہ جائے گا۔ یہ ناممکن ہے۔ تو ادب بھی مرگیا۔“ (فرائیڈے اسپیشل یکم تا 7 جنوری 2016ئ۔ صفحہ26۔27)
اس تناظر میں دیکھا جائے تو ادب کی موت کا اعلان اتنا سطحی اور سرسری مسئلہ نہیں ہے جتنا بھائی آصف فرخی صاحب نے سمجھ لیا ہے، بلکہ اس مسئلے کی جڑیں بہت دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہاں ہمیں عسکری صاحب کا ایک مضمون یاد آرہا ہے جس میں اُنہوں نے مغرب کے تین بڑے لکھنے والوں کے حوالے سے انسان کے زوال کا خاکہ مرتب کیا ہے۔ عسکری صاحب کے بقول نطشے نے کہا خدا مر گیا۔ مالرو نے کہا انسان مرگیا۔ لارنس نے کہا انسانی تعلقات کا ادب مرگیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کہنے کو کیا باقی رہ جاتا ہے؟
ظاہر ہے کہ عسکری صاحب اور سلیم احمد نے جب ادب کی موت کا اعلان کیا تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اردو زبان کے دائرے میں لوگوں نے شاعری کرنی چھوڑ دی ہے، افسانہ لکھنا ترک کردیا ہے، یا ناول اور تنقید سے یکسر کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ کچھ نہ کچھ لکھنے کا سلسلہ عسکری صاحب اور سلیم احمد کے زمانے میں بھی جاری تھا اور اب بھی جاری ہے۔ لیکن ہمارے درمیان کتنے ایسے شاعر یا ادیب موجود ہیں جن کے لیے ادب ایک طرزِ حیات ہو؟ ادب کے طرز حیات ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ لکھنے والے کی زندگی کا محور ادب کی تخلیق ہو، اس کے دل کی دھڑکنیں ادب سے ترتیب پاتی ہوں، اس کی رگوں میں ادب خون بن کر دوڑ رہا ہو اور اس کے لیے تخلیق کی لذت سے بڑھ کر اور کوئی لذت نہ ہو۔ بلاشبہ تخلیق سے انسان کو کچھ نہ کچھ شہرت بھی مل جاتی ہے اور کہیں نہ کہیں سے چار پیسوں کا بندوبست بھی ہوجاتا ہے، مگر شہرت اور پیسے سچے ادب کا بنیادی مسئلہ نہیں ہوتے۔ ادب کی تخلیق کے محرکات بدل جانے سے سب کچھ بدل جاتا ہے۔ عسکری صاحب اور سلیم احمد نے جب ادب کی موت کا اعلان کیا تو اس اعلان کا ایک مفہوم یہ بھی تھا کہ ادب کی تخلیق کے محرکات تبدیل ہوگئے ہیں۔ یہاں ہمیں عزیز حامد مدنی کا ایک شعر یاد آگیا۔ مدنی صاحب نے کہا ہے:
وہی ایک سودو زیاں کا غم جو مزاجِ عشق سے دور تھا
وہی ترے لبوں پہ بھی آگیا تو لگن ہی جی کای بکھر گیا
ذرا غور سے معاشرے کی حالت کو دیکھیے۔ معاشرہ شاعروں، ادیبوں سے پوچھ رہا ہے کہ شعر و ادب کا فائدہ کیا ہے؟ یعنی شعر و ادب کے ذریعے تم کتنا مال کما سکتے ہو یا اس سے کتنی شہرت سمیٹ سکتے ہو؟ کبھی یہ سوال صرف معاشرے کا سوال تھا مگر شاعروں، ادیبوں کی عظیم اکثریت اب یہ سوال خود سے بھی پوچھنے لگی ہے۔ چناں چہ تخلیق کی لگن بکھر کر رہ گئی ہے۔ ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے خود کو معاشرے سے منسلک اور ہم آہنگ کرنے کی عجیب صورت نکالی ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ شاعر اور ادیب انسان نہیں ہوتے یا انہیں پیسوں اور شہرت کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن اگر پیسا اور شہرت تخلیق کا محرک ہوں تو وہ جان لیوا ہیں، البتہ اگر وہ تخلیق کا نتیجہ ہوں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
ادب تخلیق ہوتا ہے زندگی کے تجربے سے۔ زندگی کے تجربے کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ انسان کو براہِ راست زندگی کا کوئی بڑا تجربہ ہوجائے۔ تجربے میں شرکت کی دوسری صورت یہ ہے کہ ہر زبان کے دائرے میں بڑے تجربات کے بیان کی ایک روایت ہوتی ہے۔ مثلاً اردو غزل کی روایت عشقیہ تجربے کی روایت ہے۔ اب اگر کسی شاعر کو محبت کا ذاتی تجربہ نہ بھی ہو تو وہ کم از کم یہ تو کرے کہ غزل کی روایت کے عشقیہ تجربے کو جذب کرے۔ اس کے بغیر بڑی غزل کیا قابلِ ذکر غزل بھی تخلیق نہیں ہوسکتی۔ اب ہمارے شاعروں کا مسئلہ یہ ہے کہ نہ انہیں محبت کا کوئی بڑا ذاتی تجربہ ہے اور نہ ہی انہوں نے غزل کی روایت کو جذب کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں زندہ ادب کیسے تخلیق ہوگا؟ یہی معاملہ دوسری اصناف کا ہے۔ اگر بیدی اور منٹو بڑے افسانہ نگار ہیں تو اس لیے کہ وہ زندگی کے تجربے میں ڈوبے ہوئے ہیں اور انہوں نے افسانے کی عالمی روایت کو جذب کیا ہے۔ آج کے بزرگ اس بات پر نوجوانوں سے ناراض ہوتے ہیں کہ وہ عشق و عاشقی میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن بزرگوں کا یہ خیال درست نہیں۔ ہمارے نوجوان عشق و عاشقی میں نہیں
بقیہ صفحہ9نمبر1
ادب کی موت
”Flirt“ میں لگے ہوئے ہیں۔”Infatuation“ میں مبتلا ہیں۔ ”Seduction“ میں ملوث ہیں۔ ہم نے انگریزی کے یہ الفاظ جان بوجھ کر استعمال کیے ہیں۔ البتہ اتنا سمجھ لیجیے کہ Flirt ایک دھوکا ہے۔ Infatuation میں محبت کا ’م‘ اور عشق کا ’ع‘ تک موجود نہیں رہا۔ Seduction یعنی ہوس پرستی کا محبت سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ان تجربات کی بنیاد پر عشقیہ غزل لکھی جائے تو کیسے؟ نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ چالیس پچاس سال میں غزل کے دائرے میں جو عشقیہ شاعری ہوئی ہے وہ عشقیہ تجربے کے زوال اور اس کے مسخ ہونے کے اظہار کے سوا کچھ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر عشقیہ تجربے کا بیان عشقیہ تجربے کے بیان کے بجائے اس کی پیروڈی بن جائے تو اسے ادب کی زندگی کہا جائے یا ادب کی موت؟
ہماری اجتماعی زندگی کی ایک مشکل یہ ہے کہ اب ہمارے پاس نہ کوئی بڑی آرزو ہے، نہ بڑا خیال۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم 1950ءمیں تخلیق ہونے والی شاعری اور افسانے کو جدید کہتے ہیں۔ حالاں کہ غلط یا صحیح، جدیدیت کا اپنا ایک مقدمہ ہے۔ اس کے اپنے عقاید و نظریات ہیں۔ اور ہمارے نام نہاد جدید ادب کو اس جدیدیت کی ہوا تک نہیں لگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جدیدیت کا ابھی تک تجربہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جدیدیت ہمارے یہاں کی ایک علمی حقیقت بھی نہیں بن سکی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ہمارے شاعر اور ادیب شعوری طور پر جدیدیت اور قدامت کو نہیں جانتے تو اُن کی تخلیقی قوت اور اُن کا ذہن کیسے کام کرے گا؟ انسان خواہ مذہب کو مانے یا نہ مانے، اس کا تناظر واضح ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر تخلیق کا دریا ازخود ایک جوئے کم آب بن کر رہ جاتا ہے۔
آصف فرخی نے بجا طور پر یہ بات کہی ہے کہ کبھی ہماری قومی زندگی کا بیانیہ ادیب مرتب کرتے تھے اور اب یہ کام ذرائع ابلاغ کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال سے کیا ظاہر ہوتا ہے، ادب اور ادیبوں کی موت یا ان کی زندگی؟ آصف فرخی صاحب کا یہ شکوہ بھی درست ہے کہ کتابیں شائع ہورہی ہیں مگر ان کا پڑھنے والا کوئی نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لکھنے اور پڑھنے والے کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے اور یہ بات خود معاشرے اور ادب کی صحت کا اظہار نہیں ہے۔