بنگلا دیش میں ’را‘ کی مداخلت پر پاکستان کو خاموش تماشائی نہیں بننا چاہیے،خواجہ سلمان

177

کراچی(انٹرویو/ قاضی عمران) بنگلا دیش میں ’را‘ کی مداخلت پر پاکستان کو خاموش تماشائی نہیں بننا چاہیے بلکہ پاکستان اور اس کے اداروں کو بنگلادیش میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے،بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ بنگلا دیش کو معاشی طور پر کھوکھلا کررہی ہے، محب اسلام بنگالیوں کو پاکستان نواز قرار دیا جارہا ہے اور 18جماعتی اتحاد کے رہنماؤں کو بیرون ملک سفر سے روک دیا گیا ہے۔ ان امور کا انکشاف پاکستان مسلم لیگ کے سینئر رہنما اور تحریک پاکستان کے رہنما خواجہ خیر الدین کے بیٹے خواجہ سلمان خیر الدین نے کیا۔

انہوں نے کہا کہ 16 دسمبر 1971ء پاکستان کی تاریخ کا خونیں باب ہے اس سانحے کو پاکستانی قوم کبھی بھلا نہیں سکتی۔ اس روز ملک کا ایک بازو ہم سے جدا کردیا گیا تھا۔ اس سانحے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ڈھائی لاکھ سے زیادہ پاکستانی آج بھی بنگلا دیش کے کیمپوں میں محصور ہیں۔ ہر سال 16 دسمبر کو یہ زخم تازہ ہو جاتا ہے۔

ہماری کوشش ہے کہ محصور پاکستانیوں کو وطن واپس لا کر اس زخم پر مرہم رکھا جائے۔ وہ جسارت سے خصوصی گفتگو کررہے تھے۔ خواجہ سلمان نے کہا کہ بہت سے دانشور بنگالی عوام کے بارے میں غلط تصویر کشی کرتے ہیں کہ وہ پاکستان سے نفرت کرتے ہیں میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ نہ صرف وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں بلکہ سچے مسلمان بھی ہیں اور آج بھی وہ پاکستان ہی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بنگالی تاجر پاکستان سے تجارت کو اب بھی فوقیت دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے بھارتی خفیہ ایجنسی مسلمان تاجروں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔

’را‘ نے بنگلا دیش کے ایسے تاجروں کی فہرست مرتب کی ہے جو حکومت مخالف ہیں یا کسی طرح ان کا حسینہ حکومت کی مخالف سیاسی پارٹی اور 18 جماعتی اتحاد سے کوئی تعلق ہے۔ ایسے تاجروں کو ملک سے باہر سفر نہیں کرنے دیا جاتا۔ حتیٰ کہ گزشتہ برسوں میں دبئی اور برطانیہ کے درجنوں سفر کرنے والوں پر بھی غیر اعلانیہ پابندی ہے، اعتراض کرنے پر انہیں پاکستان نواز قرار دے کر تفتیش کے چکروں میں اُلجھا دیا جاتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں خواجہ سلمان نے کہا کہ پاکستانی حکومت کو اس حوالے سے پیش رفت کرنی چاہیے اور بنگلا دیش کے ساتھ عوام سے عوام کی سطح پر تبادلے کے پروگرام منعقد کرنے چاہییں۔ بنگلادیشی عوام بھرپور پذیرائی کریں گے۔

انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان کے پاس جے ایف تھنڈر 17 اور دیگر اہم ہتھیار ہیں جن میں ٹینک، توپیں، رائفلیں وغیرہ ہیں، بنگلادیش کو یہ ہتھیار فروخت کرنے کی پیش کش کریں، بنگلادیش حکومت اور فوج کو اس میں دلچسپی ہے۔ دوسری طرف بنگلادیش میں ’را‘ کی مداخلت پر پاکستان کو خاموش تماشائی نہیں بننا چاہیے بلکہ پاکستان اور اس کے اداروں کو بنگلادیش میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے، بنگلادیش اور سارک ممالک پر بھارت کی بالادستی توڑنا پاکستان کے لیے ناگزیر ہے، پاکستانی خارجہ اور تجارتی پالیسی میں ان امور پر توجہ دی جانی چاہیے۔ انہوں نے پاکستان میں نادرا کی جانب سے پاکستانیوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر بھی شدید تشویش ظاہر کی۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 1971ء میں جو لوگ اپنی مرضی سے بنگلادیش نہیں گئے اور یہیں رہے ان کی پاکستانیت پر کیوں شبہ کیا جارہا ہے۔ ان لوگوں کو ان کی اولادوں کو بنگالی اور بہاری کے نام پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خصوصاً اورنگی وغیرہ کے عوام کو نادرا میں نہایت توہین آمیز سلوک کا سامنا ہوتا ہے، ہر پاکستانی کو آسانی کے ساتھ شناختی کارڈ دینا نادرا کا کام ہے۔ اس طرح بنگلادیش میں محصور پاکستانیوں کو اگر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کردیے جائیں تو وہ اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان آسکتے ہیں۔

خواجہ سلمان نے بھارتی مداخلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بنگلادیش کی حکومت سے ’را‘ کے اس قدر غلبے میں آکر سابق گورنر مشرقی پاکستان خان عبدالمنعم خان کے بیٹے مسلم لیگ بنگلادیش کے صدر قمرالزماں خان کے مکان پر قبضہ کرلیا۔ یہ چونکہ 18 جماعتی اتحاد کا حصہ ہیں اسی طرح ایک اور رہنما عبداللہ احسن کی زمینوں پر قبضہ کرلیا گیا تاہم عدالت سے قبضہ چھڑالیا گیا۔ دراصل یہ سب کام ’را‘ کی تیار کردہ فہرست کے مطابق ہورہے ہیں جب کہ چھوٹے موٹے چھاپے اور جھوٹے مقدمات معمول ہیں تا کہ لوگ تھانہ کچہری کے چکر میں پڑے رہیں۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ کے نظام پر بھی ’را‘ کا کنٹرول ہے جب کہ دفاع و خارجہ پالیسی پر تو پہلے ہی تھا، آج کل نانا برلا کی بڑی بڑی گاڑیاں، ٹرک، ٹرالر وغیرہ بنگلادیش میں چھا گئے ہیں، اسی لیے ’را‘ بنگلادیش کو چین سے کوئی معاہدہ نہیں کرنے دیتا، تاہم 18 جماعتی اتحاد نے تجارتی پالیسی تبدیل کرنے اور کسی کی اجارہ داری تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ محصور پاکستانیوں کو شناختی کارڈ جاری کردیے جائیں پھر وہ اپنی مدد آپ کے تحت آجائیں گے۔