بھان متی نے کنبہ جوڑا

132

امریکا کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران یہ اعلان کر کے ہل چل مچا دی تھی کہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ مسلمانوں پر امریکا کے دروازے بند کر دیں گے، لیکن جب اس پر ہر طرف سے شور اُٹھا تو انہوں نے، اعلان قدرے نرم کردیا لیکن اب انہوں نے اپنی کابینہ میں جن وزیروں کو شامل کیا ہے، وہ ان سے بھی زیادہ کٹر اسلام دشمن اور مسلمانوں کے مخالف ہیں۔ یہی نہیں، منتخب صدر کی کابینہ، بھان متی کا کنبہ نظر آتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹرمپ جو 1968 میں ایڑھی کی ہڈی میں نقص کا بہانہ بنا کر جبری فوجی بھرتی سے بچ گئے تھے اور ویت نام کی جنگ سے جان چھڑا لی تھی، اب سابق فوجی جرنیلوں کے ایسے دلدادہ بن گئے ہیں اور ان پر ایسے نچھاور ہیں کہ انہوں نے اپنی کابینہ میں سابق جرنیلوں کو بھر لیا ہے۔ کابینہ میں تین اعلیٰ ترین عہدوں پر ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق جرنیلوں کو مقرر کیا ہے۔ میرین کور کمانڈر جیمس میتیس کو جو باؤلے کتے کے نام سے مشہور ہیں وزیر دفاع کا عہدہ دیا ہے۔ دوسرے میرین کور کمانڈر جنرل جان کیلی کو ہوم لینڈ سیکورٹی کا وزیر مقرر کیا ہے اور جنرل مائیکل فلن کو قومی سلامتی کے مشیر کا عہدہ دیا ہے۔ فضائیہ کے سابق افسر اور ٹیکساس کے سابق گورنر، رک پیری کو انرجی کا وزیر نامزد کیا ہے۔ وزیر داخلہ کے عہدے پر ریٹائرڈ نیوی سیل کمانڈر، رائین زنکے کو مقرر کیا ہے۔
ٹرمپ کی کابینہ میں سب سے کٹر اسلام دشمن، قومی سلامتی کے مشیر جنرل مائیکل فلن ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ اسلام کوئی مذہب نہیں ہے۔ پچھلے دنوں امریکا کی اسلام دشمن تنظیم Act For America سے خطاب کرتے ہوئے جنرل فلن نے کہا تھا کہ اسلام ایک سیاسی نظریہ ہے جو مذہب کی آڑ میں چھپا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام ایک کینسر ہے۔ جنرل فلن کہتے ہیں کہ ہم کس طرح ریڈیکل اسلام اور اس کے اتحادیوں کے خلاف عالمی جنگ جیت سکتے ہیں۔ جب کہ ان کی رائے میں، مسلمانوں نے سچ کی تلاش ممنوع قرار دے دی ہے کیوں کہ وہ صرف اپنی مقدس کتاب قرآن پر یقین رکھتے ہیں۔
ٹرمپ کی کابینہ کے واحد افریقی امریکی، بین کارسن ہیں جنہیں ہاؤسنگ اور شہری ترقیات کا وزیر مقرر کیا گیا ہے۔ یہ مسلمانوں اور اسلام کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران کارسن کا کہنا تھا کہ امریکی مسلمانوں کو صدر کے عہدے پر فائز ہونے کو نااہل قرار دیا جانا چا ہیے کیوں کہ ان کے نزدیک اسلام، امریکا کے آئین سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کا اصرار ہے کہ ایک امریکی مسلمان صرف اسی صورت میں صدر کے عہدہ پر فائز ہو سکتا ہے اگر وہ اسلام کا عقیدہ ترک کرنے کا اعلان کر دے۔ بہت سے امریکی مسلمانوں کو توقع ہے کہ سینیٹ میں جب کارسن کے تقرر کی توثیق کی سماعت ہوگی تو ان سے اس بارے میں سوالات کیے جائیں گے کہ کیا ان کا موقف امریکی آئین کے خلاف نہیں جس کے تحت مذہب کی بنیاد پر کسی کو صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے لیے نا اہل نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ کی کابینہ کے سب سے زیادہ خون خوار وزیر اسٹیو بینن ہیں جن کو وہائٹ ہاؤس میں حکمت عملی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ یہ سفید فام نسل پرست مانے جاتے ہیں جو آن لائین Brietbart. com کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ اسٹیو بینن، یورپ کے نسل پرستوں کے قریبی رابطے میں ہیں اور خاص طور پر ہالینڈ کے اسلام دشمن رہنما گریٹس وائلڈر کے قریبی ساتھی ہیں۔ اسٹیو بینن Brietbart میں بڑی باقاعدگی سے اسلام کے خلاف، وائلڈر کے مضامین شائع کرتے رہے ہیں۔ وائلڈر کا موقف ہے کہ اسلام، مغربی آزادی اور عیسائی اور یہودی تہذیب کی بقا کے لیے خطرہ ہے۔
ایک اور کٹر اسلام دشمن خاتون، کیتھرین گورکا، ہوم لینڈ سیکورٹی کی ٹیم میں شامل کی گئی ہیں جو کونسل آن گلوبل سیکورٹی کی سربراہ ہیں، جو، اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے لیے قانون سازی میں پیش پیش رہی ہیں۔
ٹرمپ کی کابینہ میں وزیر دفاع جنرل جیمس میتیس جو ’’باؤلا کتا‘‘ کہلاتے ہیں اور عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کی کمان کے فرائض انجام دے چکے ہیں، صدر اوباما کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے سخت مخالف رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے تئیں سخت گیر پالیسی کے حامی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ امریکیوں نے سیاسی اسلام کے نظریہ کے قلع قمع کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے۔
ایک اور سخت گیر موقف کے حامل، مائیک پومپیو کو CIA کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ ان کا تعلق بھی فوج سے رہا ہے اور برلن میں تعینات امریکی فوج میں فرائض انجام دے چکے ہیں اور خلیج کی پہلی جنگ میں لڑ چکے ہیں۔ مائیک پومپیو نے گوانتا ناموبے کو بند کرنے کی صدر اوباما کی تجویز کی سخت مخالفت کی تھی۔ یہ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کے رکن ہیں اور بندوقوں پر پابندی کے سخت خلاف ہیں۔
ٹرمپ نے، سینیٹر جیف سیشن کو اٹارنی جنرل مقرر کیا ہے جنہیں صدر ریگن نے 1986 میں جج نامزد کیا تھا لیکن فیڈرل جوڈیشری نے ان کا نام مسترد کر دیا تھا۔ سینیٹر سیشن عام طور پر امیگریشن اور خاص طور پر مسلم امیگرنٹس کے داخلہ کے خلاف ہیں۔ عام خیال ہے کہ سینیٹر جیف سیشن، امیگریشن کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسیوں کو بھر پور طور پر عملی جامہ پہنائیں گے جس کی بنیاد پر ان کی اقلیتوں سے معرکہ آرائی جاری رہے گی۔
ٹرمپ کی کابینہ میں سب سے زیادہ متنازع تقرر، ایکسن موبیل آئل کے چیف ایگزیکٹو، ریکس ٹلر سن کا ہے جنہیں وزیر خارجہ کا عہدہ تفویض کیا گیا ہے۔ اس تقرر پر سب کو تعجب ہوا ہے، جب کہ اس عہدے کے لیے نیویارک کے سابق مئیر روڈی جولیانی، صدارتی نامزدگی کے مقابلہ میں ٹرمپ کے سابق حریف مٹ رومنی، جنرل پیٹریاس اور اقوام متحدہ میں امریکا کے سابق مندوب جان بولٹن امیدوار تھے۔
تعجب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریکس ٹلر سن، روسی صدر پیوٹن کے بہت قریبی دوست ہیں۔ پیوٹن سے ٹلرسن کے تعلقات 1990 سے ہیں۔ 2011 میں ٹلر سن نے روسی سمندر میں تیل کی تلاش کا 500 ارب ڈالر کی مالیت کے اشتراک کا سودا کیا تھا۔ اس کے ایک سال بعد پیوٹن نے ٹلرسن کو روس کا سب سے بڑا اعزاز آرڈر آف فرینڈ شپ سے نوازا تھا۔
ٹلر سن کو حکومت کا کوئی تجربہ نہیں ساری عمر انہوں نے ایکسن میں گزارا جہاں وہ 1975 میں ایک انجینئر کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے اور 2006 میں سربراہ مقرر ہوئے تھے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر پیوٹن سے گہری دوستی کی وجہ سے ٹلر سن کو امریکی خارجہ پالیسی کے سلسلے میں بہت دشوار مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلے تو سینیٹ میں ان کے تقرر کی منظوری بہت مشکل ثابت ہوگی، خود ری پبلکن پارٹی کے بعض اہم رہنماؤں کی طرف سے ریکس ٹلر سن کی مخالفت کا خطرہ ہے۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ بھان متی کے اس کنبہ کے ساتھ ٹرمپ کس طرح اپنی پالیسیاں وضع کرتے ہیں اور ان پرکس طرح کامیابی سے عمل کر پاتے ہیں۔