کیسی حاکمیت اور کہاں کی خود مختاری؟

156

وزیر داخلہ چودھری نثار علی نے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کی اشاعت کے مطالبے کی ہم نوائی اور حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2011 میں ایبٹ آباد میں امریکی مرین کا حملہ، جس میں کہا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا تھا، پاکستان کی حاکمیت کی صریح خلاف ورزی تھی۔
چودھری صاحب کی اس معصومیت کے کیا کہنے۔ انہیں شاید یہ علم نہیں کہ پاکستان کی حاکمیت اور خود مختاری کی یہ پہلی خلاف ورزی نہیں تھی۔ 9/11 کے بعد سے، امریکا ڈرون حملے کر کے، پاکستان کی حاکمیت کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور پاکستان کے حکمران، بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چودھری نثار علی کو اس کا علم نہیں کہ ہمارے داخلی معاملات میں امریکا اور برطانیہ کی مداخلت کی ریت بہت پرانی ہے۔ اور بدقسمتی کی بات ہے کہ خود ہمارے حکمرانوں نے اس سلسلے میں انہیں بڑی چاہت سے دعوت دی ہے اور گھٹنے ٹیکنے میں فخر محسوس کیا ہے اور تو اور ہماری عسکری قیادت بھی امریکا اور برطانیہ سے مدد طلب کرتی رہی ہے اور انہیں سیاسی بحران میں مداخلت کی دعوت دیتی رہی ہے۔
پرویز کیانی کی اس بارے میں بڑی تعریف کی جاتی رہی ہے کہ انہوں نے فوج کے سربراہ کی حیثیت سے فوج کو حکومتی امور میں مداخلت سے دور رکھا تھا، لیکن مارچ 2009 میں چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کی تحریک اور میاں نواز شریف کی نااہلی کے مسئلے کے دوران انہوں نے امریکی سفیر این پیٹرسن سے جو ’’دیوانہ وار‘‘ ملاقاتیں کیں اور صلاح مشورہ کیا اسے پاکستان کی حاکمیت کی صریحی خلاف ورزی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
2010 میں وکی لیکس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں امریکی سفیر این پیٹرسن نے اپنے خفیہ تار 12 March, 2009, 01 of 04 Islamabad, 000516 میں امریکی انتظامیہ کو لکھا تھا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی اور نواز شریف کی نااہلی کے مسئلے پر بحران کے دوران، ان سے جنرل کیانی کی ایک ہفتہ میں چار ملاقاتیں ہوئیں۔ این پیٹرسن کا کہنا تھا کہ چوتھی ملاقات میں جنرل کیانی نے بتایا کہ اگر صورت حال بہت خراب ہوئی تو ان کا ارادہ صدر زرداری کو ان کے عہدے سے ہٹا کر انہیں جبری ملک بدر کرنے کا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ وہ آصف علی زرداری سے کہیں زیادہ نواز شریف کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے بر سر اقتدار آنے کے سخت خلاف ہیں۔ امریکی سفیر کے تار میں کہا گیا ہے کہ جنرل کیانی، آصف علی زرداری کی جگہ، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ، اسفندیار ولی خان کو اس عہدے پر فائز کرنا چاہتے تھے لیکن وزیر اعظم کے عہدے پر یوسف رضا گیلانی کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔
امریکی سفیر این پیٹر سن کے اس خفیہ تار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فوجی آمر مشرف کی معزولی کے باوجود، فوج، سویلین حکومت پر کس قدر حاوی تھی اور اس تار سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جنرل کیانی کس حد تک جا کر پاکستان کے سیاسی معاملات میں امریکی سفیر کو اعتماد میں لیتے تھے۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ امریکا اور برطانیہ کے سفیروں کی پاکستان کے معاملات میں کس حد تک مداخلت تھی۔
امریکی سفیر این پیٹرسن نے اپنے تار میں لکھا ہے کہ جنرل کیانی نے ان سے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ امریکا اس بحران کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرے گا کیوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ میاں نواز شریف بر سر اقتدار آئیں۔ این پیٹرسن نے اپنی انتظامیہ کو یہ بھی بتایا کہ جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ ان کے کور کمانڈروں نے بھی آصف علی زرداری کے بارے میں تشویش ظاہر کی تھی کیوں کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کرپٹ ہیں اور انہوں نے پاکستان کے اقتصادی اور سیکورٹی کے چیلنجوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔
وکی لیکس کے مطابق امریکی سفیر نے اپنے تار میں لکھا تھا کہ جنرل کیانی نے اپنی شکایات کا آصف علی زرداری سے براہ راست ذکر نہیں کیا کیوں کہ انہیں خطرہ تھا کہ زرداری سے تنازع انہیں مہنگا پڑے گا اور ہوسکتا ہے کہ زرداری انہیں برطرف کردیں۔
وکی لیکس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سیاسی بحران کے دوران، برطانوی ہائی کمشنر رابرٹ برنکلے نے امریکی سفیر کو مطلع کیا کہ انہوں نے اس بحران کے بارے میں لندن سے مشورہ کیا ہے اور لندن نے انہیں اجازت دی ہے کہ وہ دونوں فریقوں پر زور دیں کہ وہ اس سلسلے میں مفاہمتی راہ اختیار کریں۔ برطانوی ہائی کمشنر نے این پیٹر سن کو یہ بھی بتایا کہ لندن نے اس بحران میں مصالحتی کردار ادا کرنے کا فی الحال فیصلہ نہیں کیا ہے۔
آخر کار آصف علی زرداری کو خفت آمیز طریقے سے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور، 16 مارچ کو نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے اور چیف جسٹس کو بحال کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ اس وقت، اس سلسلے میں خبروں میں یہ کہا گیا کہ جنرل کیانی نے زرداری کو اپنا موقف تبدیل کرنے کے سلسلے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اس وقت کسی نے اس معاملے میں امریکی سفیر اور برطانوی ہائی کمشنر کے کردار کا ذکر نہیں کیا اور نہ یہ پتا چلا کہ مغربی سفارت کاروں نے پاکستان کے معاملات میں مداخلت کر کے ملک کی حاکمیت اور خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔
اس دوران امریکی سفیر سے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے بھی ملاقات کی، جس کے بارے میں امریکی سفیر نے اپنے تار میں لکھا کہ اسفندیار ولی نے اس بحران کے حل کے لیے برطانیہ کی مصالحت کی تجویز کا خیر مقدم کیا لیکن کہا کہ اس سلسلے میں امریکا کی رائے کی زیادہ اہمیت دی جائے گی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ کے نزدیک پاکستان کی حاکمیت اور خودمختاری کے احترام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی سفیر نے اپنے تار میں اپنی حکومت کو مطلع کیا کہ اسفندیار ولی نے زور دیا کہ امریکا، متحدہ عرب امارات سے کہے کہ وہ زرداری پر دباو ڈالے اور سعودی عرب سے کہے کہ وہ نواز شریف پر دباؤ ڈالے کہ وہ اپنے اپنے موقف ترک کردیں۔
اسفندیار ولی نے امریکی سفیر سے کہا کہ اگر ان سے کہا گیا تو وہ زرداری اور نواز شریف کے درمیان مصالحت کرانے کے لیے تیار ہیں۔ اسفندیار ولی نے امریکی سفیر کو یاد دلایا کہ فروری 2008 کے عام انتخابات کے فوراً بعد زرداری نے انہیں وزیر اعظم کے عہدے کی پیش کش کی تھی۔
چودھری نثار علی ایبٹ آباد پر حملہ کے سلسلے میں امریکی مرین پر پاکستان کی حاکمیت اور خود مختاری کی خلاف ورزی کی کیا شکایت کرتے ہیں خود پاکستان کے رہنماؤں اور فوجی قیادت کو اپنے ملک کی حاکمیت کا کیا پاس ہے؟