اب اس بات میں قطعی کوئی شبہ نہیں رہا کہ داعش کے ظہور کے پیچھے، در اصل امریکا کی سی آئی اے، اسرائیل کی موساد اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کا ہاتھ ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اگر کوئی اس بارے میں دستاویزی ثبوت طلب کرے تو یہ پیش کرنا مشکل ہے، لیکن حالات سے اخذ کردہ شہادت یا مبنی بہ قرائیں ثبوت اس بات کی واضح نشان دہی کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا، اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے جو مقاصد ہیں، ان کے حصول کے لیے داعش کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اور داعش کا قلع قمع کرنے کے لیے امریکا اور مغربی طاقتوں کی طرف سے حملوں کا جو دعویٰ کیا جارہا ہے وہ محض دکھاوا ہے اور حقیقت میں ان ہی طاقتوں کی طرف سے عراق اور شام میں داعش کو زندہ رکھا جارہا ہے۔
اس حقیقت کی کوئی تردید نہیں کر سکتا کہ القاعدہ، امریکا کی سی آئی اے کی منظم کردہ تنظیم ہے اور داعش نے دراصل، عراق میں القاعدہ سے ملحق تنظیم کی حیثیت سے جنم لیا تھا۔ شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف لڑنے والی دو اہم تنظیموں، جبہتہ فتح الشام اور جیہۃ النصرہ کے ساتھ داعش کے قریبی روابط رہے ہیں۔ ان تنظیموں کو امریکا، سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک کی آشیر باد حاصل رہی ہے۔ جبہتہ فتح الشام اور جبہتہ النصرہ سے مشترکہ مفادات کی بناء پر داعش کے امریکا کے ساتھ گہرے روابط ثابت ہوتے ہیں۔
اس سوال کا ابھی تک امریکا کی طرف سے کوئی قابل فہم جواب نہیں مل سکا ہے کہ جون 2014 میں جب داعش کی سپاہ، ٹیوٹا پک اپس میں سوار شام سے عراق میں داخل ہوئی تھیں تو اس وقت نہ تو امریکا کے جاسوس سیارچوں نے ان کا سراغ لگایا اور نہ عراقی فوج نے ان کا راستہ روکا۔ داعش کی سپاہ کے یہ قافلے جب شام کے پانچ سو میل طویل صحرا سے گزر رہے تھے، تو اس وقت امریکا کے F15, اور F16 طیارے بڑی آسانی سے ان قافلوں کو نشانہ بنا سکتے تھے اور داعش کو نیست و نابود کر سکتے تھے۔ 10 جون کو داعش نے دس لاکھ کی آبادی والے، عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر جب قبضہ کیا تھا تو یہ کسی طور بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ پینٹاگون اور سی آئی اے کو علم نہیں تھا کہ داعش کی سپاہ شام سے موصل کی جانب پیش قدمی کر رہی ہیں۔ پھر یہ بھی بات سمجھ سے باہر ہے کہ موصل میں عراق کی 30ہزار فوج نے داعش کی ایک ہزار سپاہ کے سامنے آناً فاناً ہتھیار ڈال دیے۔ وہاں امریکی فضائیہ نے داعش کی سپاہ پر اس وقت بمباری کی جب انہوں نے تیل سے مالا مال کردستان کی جانب پیش قدمی کی جس پر امریکیوں کا خاص دست شفقت ہے۔
امریکا کی طرف سے اس بات پر بہت شور مچایا جاتا ہے کہ صدر اوباما نے اگست 2014 میں داعش کے خلاف بڑے پیمانے پر بمباری کی مہم شروع کی تھی، لیکن اس کا مقصد صرف کردستان کو بچانا تھا، داعش کا قلع قمع کرنا نہیں تھا۔ امریکی CentCom کے مطابق 2014 سے اب تک امریکا نے داعش کے ٹھکانوں پر 32ہزار سے زیادہ حملے کیے ہیں۔ اس پیمانے کے حملوں کے باوجود داعش کو شکست نہیں دی جا سکی ہے۔ ان حملوں کے دوران، داعش کی تیل کی تنصیبات پر 2638 حملے کیے گئے اور 9ہزار فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ فوجی مبصر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس پیمانے کے حملوں سے داعش کی کمر نہیں توڑی جاسکی۔
پھر اب گزشتہ اکتوبر سے عراقی فوج نے شیعہ ملیشیا اور کردوں کی پیش مرگہ فوج کے ساتھ مل کر موصل کو داعش کے قبضہ سے آزاد کرانے کے لیے فوجی کارروائی شروع کی گئی ہے۔ پچھلے تین ماہ کے دوران، عراق کے دو ہزار فوجیوں کی ہلاکت اور امریکی فضائیہ کی زبردست بمباری کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے، گو موصل کے مضافات کے دیہاتوں پر تو قبضہ کر لیا گیا ہے لیکن موصل شہر میں داخلہ میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ جب کہ موصل پر حملہ آور فوجوں کی قیادت اور مدد امریکی فوج کے خاص دستے کر رہے ہیں۔ عراق میں اتحادی فوجوں کے امریکی کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل اسٹیفن ٹاونسینڈ نے پچھلے ہفتہ صاف صاف کہا ہے کہ عراق میں موصل اور شام میں رقہ میں داعش کا صفایا کرنے میں کم سے کم دو سال لگیں گے۔ فوجی مبصرین کا کہنا ہے کہ شام میں روسی فوجوں کی فیصلہ کن مداخلت اور موصل میں امریکی فوج کی مداخلت میں نمایاں فرق ہے اور اس بناء پر اس شبہ کو تقویت پہنچ رہی ہے کہ امریکا موصل میں داعش کا مکمل قلع قمع کرنا نہیں چاہتا ہے۔
اب یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ داعش کے قیام کا مقصد در اصل مشرق وسطیٰ میں امریکا اور اسرائیل کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کرنا ہے۔ امریکا اور اسرائیل دونوں عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، ایک شیعہ مملکت، دوسری موصل میں سنی ریاست، اور تیسری کردستان، جس میں تیل کی وجہ سے امریکا کا خاص مفاد وابستہ ہے۔ اسرائیل ہمیشہ سے عراق کو اپنے خلاف ایک اہم محاذ گردانتا رہا ہے اور اسے کمزور کرنے کے جتن کرتا رہا ہے۔ جون 1981میں بغداد سے دس میل دور عراق کے جوہری ری ایکٹر پر اسرائیل کا اچانک حملہ اور اس کی تباہی، اسی کاوش کا حصہ تھا۔
ادھر امریکا، اسرائیل اور برطانیہ، شام کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل، ہمیشہ شام کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتا رہا ہے کیوں کہ شام نے شروع سے فلسطینیوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی ہے اور فتح اور حماس کے قائدین کو پناہ دی ہے۔ پھر شام، اسرائیل کے عرب پڑوسیوں میں واحد ملک ہے جس نے اسرائیل سے امن سمجھوتا نہیں کیا ہے اور جولان کی پہاڑیوں کا مسئلہ اب بھی تنازع کا باعث ہے۔ جولان کی پہاڑیوں کا علاقہ دریائے اردن کا منبع ہے جس پر اسرائیل اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے، اسی لیے اسرائیل، شام کو کمزور کر نے کے لیے اسے شیعہ اور سنی مملکتوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔
امریکا، عراق میں موصل کو سنی مملکت کی حیثیت سے داعش کے زیر تسلط رکھنا چاہتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد، تہران سے بیروت تک ایران کے اثر کی قوس کو توڑنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا، عراق سے داعش کا مکمل قلع قمع کرنے کے لیے بھر پور فوجی کارروائی سے پس و پیش کر رہا ہے۔ اور اسی بنیاد پر مبصرین یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ داعش کو منظم کرنے کے پیچھے امریکا اور مشرق وسطیٰ میں اس کے اتحادیوں کا ہاتھ ہے۔ کوئی شے چھپ نہیں سکتی، سب طریقے ہیں ساحرانہ۔