اقتدار کی ہوس یا پارلیمنٹ میں پناہ مقصود

148

دنیا میں جہاں جہاں مستحکم جمہوریتیں ہیں وہاں یہ دیرینہ روایت ہے کہ سابق صدر اور سابق وزیر اعظم، اپنے عہدے سے دست بردار ہونے کے بعد دوبارہ پارلیمنٹ کا انتخاب نہیں لڑتے۔ اپنے عہدے سے سبک دوش ہونے کے بعد وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ حال میں برطانیہ میں ریفرنڈم میں شکست کے بعد ڈیوڈ کیمرون نے اپنے عہدے سے استعفا دینے کے بعد فی الفور پارلیمنٹ کی رکنیت سے بھی استعفا دے دیا تھا۔ ان سے قبل 2010 میں عام انتخابات میں شکست کے بعد لیبر پارٹی کے وزیر اعظم گورڈن براؤن نے جو پارلیمنٹ کے رکن رہ سکتے تھے، پارلیمنٹ کو خیر باد کہنے کو ترجیح دی۔ اور ان سے پہلے ٹونی بلیئر، گورڈن براؤن کے حق میں وزارت عظمیٰ سے دست بردار ہونے کے بعد پارلیمنٹ کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے تھے۔ اب تک کہیں یہ نہیں سنا گیا کہ صدر اپنے عہدے سے سبک دوش ہوکر دوبارہ اس پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے میدان میں اُترا ہو، جس کو وہ صدر کی حیثیت سے خطاب کر چکا ہو اور جس میں بیٹھے وزیروں سے وہ حلف لے چکا ہو۔
بے نظیر بھٹو کی نویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش کے جلسہ سے خطاب میں آصف علی زرداری کا یہ اعلان کہ وہ نواب شاہ سے موجودہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے انتخاب لڑیں گے، سب کے لیے حیرت کا باعث ثابت ہوا ہے۔ یہ بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئی روایت ثابت ہوگا۔ بہت سے لوگوں کی رائے میں اس وقت آصف علی زرداری کے لیے بہترین موقع تھا کہ وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہو کر، اپنے فرزند جو اپنی والدہ کے قتل کے بعد، پر اسرار وصیت کے ذریعے پیپلز پارٹی کے قائد مقرر ہوئے ہیں، سیاسی تربیت دیتے اور انہیں مفاہمت اور مصالحت کے نام پر سیاسی جوڑ توڑ کا جو تجربہ ہوا ہے اس کے راز سے بلاول کو فیض یاب کرتے۔ یہ بڑا اچھا موقع تھا کہ زرداری سیاسی جماعتوں کی سیاست میں اُلجھنے کے بجائے، سیاسی مرشد یا گرو کا کام انجام دیتے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سابق صدر کو اپنے خلاف کرپشن کے سنگین الزامات کا حصار تنگ ہونے کا خطرہ ہے۔ ان کے سابق وزیر پٹرولیم اور قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف کرپشن کے الزامات کے چھینٹے برابر سابق صدر پر پڑ رہے ہیں۔ پھر حال میں ان کے قریبی معتمد انور مجید کے دفتر پر چھاپے اور اسلحہ برآمد ہونے کے بعد گرفتاری سے زرداری بے حد خائف نظر آتے ہیں۔
آصف علی زرداری اٹھارہ ماہ کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد جب وطن لوٹے تھے تو ان کا انداز، اپنے فرزند بلاول کے مقابلے میں بہت مفاہمتی تھا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وطن واپسی سے تھوڑی دیر پہلے انور مجید اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد، سابق صدر کا انداز یکسر بدل گیا ہے۔ انہوں نے گڑھی خدا بخش کے جلسے میں، وزیر اعظم نواز شریف کو مغل بادشاہ قرار دیتے ہوئے للکارہ ہے کہ ہم آپ کی بادشاہت کو نہیں چھوڑیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ افسوس ہے کہ میاں صاحب نے ’’ہماری‘‘ جمہوریت کا خانہ خراب کردیا ہے۔ زرداری کا کہنا تھا کہ وہ اس وجہ سے پارلیمنٹ میں نہیں آرہے ہیں کہ میاں نواز شریف کی کرسی کھیچنی ہے۔ ’’نہ آپ کی حکومت رہنی ہے اور نہ کرسی رہنی ہے۔ ہر چیز کو زوال ہے‘‘۔ خود ساختہ جلا وطنی کے بعد زرداری میں یہ تبدیلی نمایاں ہے۔ دبئی جانے سے پہلے انہوں نے اس زمانے کے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے کہا تھا کہ وہ صرف تین سال کے لیے آئے ہیں اور ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اس موقع پر سابق صدر نے فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بھی دھمکی دی تھی۔ واپسی پر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ میاں صاحب ہم نے ایسی ایسی جیلیں کاٹی ہیں کہ آپ وہاں جائیں تو اندازہ ہوجائے گا۔ شاید زرداری اٹک کی سنگین جیل کا جہاں میاں نواز شریف جدہ جلا وطنی سے پہلے پا بند سلاسل رہے تھے، موازنہ کراچی میں ڈاکٹر عاصم کے ضیاء الدین ہسپتال سے کر رہے تھے جہاں انہوں نے علاج کے بہانے ’’قید‘‘ کاٹی تھی اور اپنے آپ کو پاکستان کا نیلسن مینڈیلا کہلاتے ہیں۔
پھر بہت کم لوگ آصف علی زرداری کے اس دعوے سے اتفاق کریں گے کہ ’’ہم وقت کے آمروں سے لڑے ہیں لیکن فوج کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھائی‘‘۔ شاید وہ بھول گئے کہ دبئی جانے سے پہلے انہوں نے فوج کے بارے میں کیا کہا تھا۔
گڑھی خدا بخش کے جلسے میں آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو بادشاہ سلامت کا جو طعنہ دیا ہے اس کا مقصد بھبکی کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا اور جس کے پیچھے واضح طور پر ان کے خلاف کسی بڑی کارروائی کا خوف جھلکتا ہے۔ بہت سے لوگوں کی رائے میں اسی خوف کی بناء پر آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے اور پارلیمنٹ کی پناہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو پارلیمنٹ کی مراعات کے پیچھے وہ چھپ سکیں گے۔ بہر حال بہت جلد سابق صدر کی حکمت عملی واضح ہو جائے گی کہ دوبارہ قومی اسمبلی میں آنے کا ان کا اصل مقصد کیا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں یہ پہلا موقع ہوگا کہ والد اور فرزند دونوں ایک ہی ایوان میں ایک ہی پارٹی کے رہنما کی حیثیت سے بیٹھیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں منتخب ہونے کے بعد آصف علی زرداری، شریک چیرمین کی حیثیت سے حزب مخالف کے قائد کی نشست سنبھالیں گے یا ان کے فرزند بلاول، پارٹی چیرمین کی حیثیت سے اس نشست کے دعوے دار ہوں گے۔ اور اگر بلاول حزب مخالف کے قائد بنے تو کیا والد صاحب وفاداری کا پاس رکھتے ہوئے، ان کے پیچھے بیٹھیں گے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ انوکھی بات ہوگی جس کی دنیا کی کسی پارلیمنٹ میں نظیر نظر نہیں ملتی ہے۔ بلا شبہ یہ اقتدار کی ہوس جنگ کی نقیب ہے اور ملک کی سیاست کے ستارے ایک نئی گردش میں نظر آتے ہیں۔