کٹر ہندو انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم تیزسے تیز تر ہوتی جاری ہے۔ پہلے مسلمانوں کے ایک سو چالیس سال پرانے تعلیمی ادارے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مسلم شناخت ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ گزشتہ سال جنوری میں مودی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادراہ تسلیم نہیں کرتی اور نہ یہ مسلمانوں کے لیے مخصوص یونیورسٹی ہے۔ یہی موقف پچانوے سال پرانے تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی مسلم شناخت ختم کرنے کے لیے پیش کیا گیا۔ دلیل یہ دی گئی کہ ہندوستان ایک سیکولر مملکت ہے جس میں اقلیتوں کے نام پر کوئی ادارہ قائم نہیں ہوسکتا۔ پھر بڑے پیمانے پر دیہات کے مسلمانوں کو ’’گھر واپسی‘‘ کے نام سے ہندو بنانے کی مہم شروع کی گئی۔ آغاز اس کا آگرہ میں پسماندہ مسلمانوں کی وید نگر بستی سے کیا گیا جہاں دسمبر 2014میں250مسلمانوں کو جبری شدھی کرنے کی تقریت منعقد ہوئی۔ گزشتہ سال، گائے کُشی کے خلاف تحریک کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف مہم شروع کی گئی جس کے دوران صرف جھوٹی افواہیں پھیلا کر10 مسلمانوں کی جانیں لے لی گئیں۔
اب نریندر مودی، ان کی سیاسی چھاتہ تنظیم، آر ایس ایس اور اتحادی، وشوا ہندو پریشد نے، ٹیپو سلطان، فتح علی، شیر میسور کے خلاف نفرت بھڑکانے کی منظم مہم شروع کی ہے۔ انتہا پسند ہندو ہمیشہ اس بات بری طرح سے کسماتے رہے ہیں کہ کرناٹک کے ہندوؤں میں ٹیپو سلطان کو ایک انقلابی حکمران تسلیم کیا جاتا ہے جس نے ان کی آزادی کے لیے انگریزوں سے چار خونریز جنگیں لڑیں اور آخری جنگ میں انہوں نے اپنی جان نچھاور کر دی۔ کرناٹک کے عوام میں ٹیپو سلطان اس وجہ سے بھی مقبول ہیں کہ انہوں نے اپنے دور میں انتظامی اصلاحات نافذ کیں، اپنی کرنسی رائج کی، نیا مولودی کیلنڈر شروع کیا، بر صغیر میں پہلا راکٹ تیار کیا، ہندوستان کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے بحری بیڑہ منظم کیا اور بین الاقوامی تعلقات استوار کیے۔ یہی وجہ ہے کہ کرناٹک کے عوام نہایت جوش و خروش سے20نومبر کو ٹیپو سلطان کا یوم پیدائش (ٹیپو جینتی) مناتے ہیں اور4مئی کو ان کی برسی پرجوق در جوق سرنگا پٹم میں ان کے اور ان کے والد کے مزار پر خراج عقیدت پیش کرنے جاتے ہیں۔
نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے کٹر ہندو اتحادیوں کے ساتھ مل کر ٹیپو سلطان کے خلاف نفرت پھیلا نے کے لیے، ٹیپو جینتی کے بائیکاٹ اور اس پر پابندی عائد کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ اس مقصد کے لیے ان انتہا پسند ہندوؤں نے تاریخ کو مسخ کرنا شروع کیا ہے اور ٹیپو سلطان پر یہ سنگین الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے اور ان کے والد حیدر علی نے 1785 میں میسور سے ایک سو کلو میٹر مغرب میں کوداگو ضلع پر33 حملے کیے، وہاں 60ہزار ’’کوداوا‘‘ ہندوؤں کا قتل عام کیا، اور کوداگو سے80ہزار سے لے کر ایک لاکھ دس ہزار ہندوؤں کو قیدی بند کر سرنگا پٹم لے گئے اور انہیں جبری مسلمان بنا لیا۔
نریندر مودی کی حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے کوداواز کے اس مبینہ قتل عام کو مسلمانوں کے خلاف نفرت کے لیے اچھالا جا رہا ہے۔
10نومبر2015کو کرناٹک کی کانگریسی حکومت نے ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش کی تقریب منائی تھی جس کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے کارکنوں نے ہنگامے کیے تھے جن میں دو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں دسمبر 2015 میں آر ایس ایس کے کارکنوں نے کوداوا کے چند انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر کوداگو کے صدر مقام، مریکیری سے تیس کلو میٹر دور جنگل میں اس جگہ ایک یاد گار پتھر نصب کیا تھا جہاں ان کے دعوے کے مطابق ٹیپو سلطان نے 13دسمبر 1785میں کوداواز کا قتل عام کیا تھا۔
ٹیپو سلطان کے خلاف کوداواز کے قتل عام کا یہ الزام ، کوداوا نیشنل کونسل کے صدر این یو نچ اپا اور ٹیپو جینتی کے بائیکاٹ کی مہم چلانے والی کمیٹی کے کنوینر اوندا کری اپا نے لگایا ہے اور اس بارے میں انہوں نے فرانس کے صدر کے نام ایک خط بھی لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوداواز پر حملے میں ٹیپو سلطان کی فوجوں کے ساتھ فرانسسی فوج کے دستے بھی شامل تھے۔ انہوں نے فرانسیسی صدر سے مطالبہ کیاہے کہ فرانسسی فوجیوں کے رول پر معافی مانگی جائے۔
ٹیپو سلطان کے خلاف انتہا پسند ہندوؤں کی تازہ مہم سے پہلے پوری 19ویں صدی کے دوران انگریزوں کی طرف سے ٹیپوسلطان کو بدنام کرنے کا سلسلہ جاری رہا ہے جن میں کرنل ولیم کرک پیٹرک اور مارک ولکس پیش پیش رہے ہیں، جو حیدر علی کو بھیڑیا کہتے رہے ہیں۔ مقصد اس مہم کا یہ تاثر دینا تھا کہ دراصل انگریزوں نے جنوبی ہند کے عوام کو ٹیپو اور حیدر علی کے تسلط سے آزاد کرایا ہے۔
کرناٹک کے ایک ممتاز وکیل اے کے سبییا نے ٹیپو سلطان کے بارے میں انتہا پسند ہندوؤں کے تاریخی بیانیے کو غلط قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کوداواز کا کوئی قتل عام نہیں ہوا۔ ٹیپو نے گنے چنے کوداواز کو قیدی بنایا تھا۔ اے کے سبییا کا کہنا ہے کہ کوداواز نے جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت کرتے ہیں، مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے۔
1855میں ایک جرمن مشنری، فیدریخ مو یگلنگ نے لکھاتھا کہ ٹیپو سلطان کے زمانے میں کوداگو کی کل آبادی 25یا26ہزار تھی اور اس کی فوج میں زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار افراد تھے۔ کوداگو کی آبادی میں اس وقت مسلمانوں کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ جرمن مشنری کے ان اعداد و شمار کے پیش نظر یہ الزام یکسر مبالغہ لگتا ہے کہ ٹیپو سلطان کی فوج نے 60ہزار کوداواز کا قتل عام کیاتھا اور 80 ہزار کوداواز کو قیدی بنا کر سرنگاپٹم لے جایا گیا اور انہیں جبرا مسلمان بنایا گیا۔
نریندر مودی کے اس دور میں ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی جو مہم جاری ہے، جس کے بل پر ہندو قوم پرستی کے فروغ کی سر توڑ کوشش کی جارہی ہے، ان حالات میں ان صحیح تاریخی حقائق کی شنوائی ممکن نہیں۔