غاصب اسرائیلی حکومت جہاں ایک طرف مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بین الاقوامی برادری کی شدید مخالفت کے باوجود غیرقانونی یہودی بستیوں کی دھڑا دھڑ تعمیر جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب فلسطینی شہریوں کے مکانات مسمار کرنے کی ظالمانہ مہم بھی زوروں پر ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال 2016 میں قابض صہیونی فورسز نے مقبوضہ غرب اردن اور مشرقی بیت المقدس میں فلسطینی شہریوں کے 1089مکانات منہدم کیے جس کے نتیجے میں 1600فلسطینی چھت سے محروم ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق اوچا کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی ریاست فلسطینی شہریوں کے مکانات مسماری کی انتقامی پالیسی نہ صرف جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ حالیہ برسوں کے دوران اس میں غیرمعمولی تیزی آئی ہے۔
سال 2016 کے دوران 1100کے قریب مکانات مسمار کیے گئے جس کے نتیجے میں 1600فلسطینی بے گھر ہوئے۔ بے گھر ہونے والوں میں بیشتر بچے اور عورتیں شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارے نے بے گھر کیے گئے فلسطینیوں کی بحالی کے لیے عالمی برادری سے 547 ملین ڈالر کی مدد طلب کی ہے اور کہا ہے کہ اس رقم کا 70 فی صد غزہ کی پٹی میں جنگ سے متاثرہ شہریوں کی بحالی پر صرف کیا جائے گا جب کہ بقیہ رقم میں سے 52 فی صد اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسیاونرا کو دی جائے گی۔
اقوام متحدہ کے اعدود شمار کے مطابق 48 لاکھ فلسطینیوں میں سے 18 لاکھ افراد کو فوری قانونی اور مادی معاونت کی ضرورت ہے۔ سولہ لاکھ فلسطینی ناکافی اور غیر صحت مند خوراک استعمال کرتے ہیں۔ سنہ 2014 میں غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے 50 ہزار فلسطینی اب بھی مکان سے محروم ہیں۔
غرب اردن میں 8000فلسطینیوں کو گھروں سے محرومی کے خطرے کا سامنا ہے۔ ہزاروں افراد صحت، تعلیم اور پانی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔