بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کا پاکستان سے متعلق نعرہ بالکل واضح ہے۔ ایک جانب وہ کہہ رہے ہیں پاکستان مردہ باد، دوسری جانب وہ چیخ کر کہے رہے ہیں نواز شریف زندہ باد۔ لیکن اس بات کا مفہوم کیا ہے؟
اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ نریندر مودی میاں نواز شریف کی سالگرہ پر انہیں مبارک باد دینا نہ بھولے۔ انہوں نے میاں صاحب کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ اصولی اعتبار سے اس بات پر اعتراض کی کوئی بات نہیں۔ لیکن اطلاعات کے مطابق نریندر مودی نے میاں صاحب کی سالگرہ کے اگلے ہی روز ایک اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کے مزید امکانات کا جائزہ لیا گیا۔ بلکہ اس سلسلے کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ بھارت نے دریائے جہلم کا پانی روک دیا ہے جس سے پاکستان کے وسیع رقبے میں کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔ اصول ہے۔ دشمن ملک کا سربراہ بھی دشمن ہوتا ہے۔ لیکن بھارت بیانات سے نہیں اپنے عمل سے اعلان کررہا ہے کہ پاکستان ہمارا دشمن ہے اور ہم اسے پانی کے ایک ایک قطرے کے لیے ترسا دیں گے لیکن ہمیں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی سالگرہ کا دن بھی یاد رہے گا اور ہم اس دن پر ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کریں گے۔ پاکستان کے مفادات کے تناظر میں دیکھا جائے تو میاں صاحب کو بھارت کی اس دوغلی پالیسی پر احتجاج کرتے ہوئے کہنا چاہیے کہ ان کے لیے اہم ہے کہ پاکستان ان کی ذات اور ان کے یوم پیدائش کی کوئی اہمیت نہیں۔ مگر ہوا یہ ہے کہ میاں صاحب بھارت کے جارحانہ رویوں پر تو کوئی احتجاج نہیں کررہے البتہ ان کی دختر نیک اختر مریم نواز نے اپنے والد کی سالگرہ پر شری مودی کی مبارک باد کا شکریہ ادا کیا ہے۔ قائد اعظم کی روایت اور ان کا ورثہ یہ ہے کہ اپنی ذات اور خاندان کو بھول جاؤ ملک و قوم کو یاد رکھو لیکن میاں نواز شریف اور ان کے زیر اثر ان کی صاحب زادی کی روایت اور ورثہ یہ ہے کہ اپنی ذات اور خاندان کو یاد رکھو ملک و قوم کو فراموش کردو۔ لیکن میاں صاحب اور ان کے اہل خانہ جو کچھ کررہے ہیں اس کا سبب کیا ہے؟
اقبال نے کہا ہے
دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامان موت
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھ میں ہے دل یا شکم؟
اس سلسلے میں میاں صاحب کا ’’انتخاب‘‘ عیاں ہے۔ میاں صاحب دل کے خلاف اور پیٹ کے حق میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہمیں ماضی کو فراموش کرکے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے۔ لیکن میاں صاحب کو معلوم نہیں کہ جو قومیں اپنے ماضی کو بھول جاتی ہیں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ لیکن یہ پیٹ کے انتخاب کے سلسلے میں بنیادی بات نہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ میاں صاحب مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ میاں صاحب کا یہ خیال دو اعتبار سے غلط ہے۔ اس خیال کے غلط ہونے کی پہلی بنیاد یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان کی تاریخ کا مرکزی نقطہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جتنی جنگیں ہوئی ہیں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ پاکستان 65 سال سے اپنے دفاع پر خطیر رقوم خرچ کررہا ہے تو اس کی وجہ کشمیر کا تنازع ہے۔ کشمیر کے عوام 1947ء سے اب تک لاکھوں جانوں کی قربانی دے چکے ہیں تو اس کی وجہ کشمیر کا خطہ اور اس کی آزادی ہے۔ چناں چہ سوال یہ ہے کہ کشمیر کو ایک طرف رکھ کر پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات کیوں کر معمول پر لایا جاسکتا ہے۔ کشمیر کو فراموش کرنا پاکستان کی پوری تاریخ کو فراموش کرنا ہے۔ کشمیر کو پھلانگنا پاکستان کی پوری تاریخ کو پھلانگنا ہے۔ جہاں تک بھارت کے ساتھ تجارت کا تعلق ہے تو اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ لیکن بھارت سے تجارت کے لیے صرف مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ضروری نہیں۔ پاکستان کے قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت سے قبل ہم پاکستان کی صنعتی بنیاد کو مضبوط، وسیع اور متنوع بنائیں تا کہ اگر پاکستان دس چیزیں درآمد کرے تو اسے پانچ سات چیزیں برآمد بھی کرسکے۔ اس کے بغیر پاکستان بھارت کی منڈی بن کر رہ جائے گا اور پاکستان میں ایسے بے ضمیر تاجروں کی کوئی کمی نہیں جنہیں ملک و قوم کے مفاد سے کچھ لینا دینا نہیں ہوگا۔ وہ صرف اپنا ذاتی مفاد دیکھیں گے اور بھارت سے مصنوعات درآمد کرنے پر اپنا سارا سرمایہ لگا دیں گے۔
میاں صاحب کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ پاک بھارت کش مکش کو دو ملکوں کے حکمرانوں کی کش مکش سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ یہ دو قوموں، دو تاریخوں اور دو تہذیبوں کی کش مکش ہے۔ یہ کش مکش اتنی گہری ہے کہ اس نے 19 ویں اور 20 ویں صدی میں برصغیر کے تین بڑے مسلم رہنماؤں کی قلب ماہیت کی ہے۔ سرسید ایک زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار تھے اور انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک خوب صورت دلہن کی دو آنکھیں قرار دیا تھا۔ لیکن اردو ہندی تنازعے نے سرسید کو احساس دلایا کہ ان کے ہندو مسلم اتحاد کے سلسلے میں ان کے خیالات بہت رومانوی ہیں چناں چہ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ کانگریس کا حصہ بننے کے بجائے اپنا پلیٹ فارم تشکیل دیں اور اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ ہے کہ سرسید ’’جہادی‘‘ تھے۔ نہ ’’بنیاد پرست‘‘۔ وہ معروف معنوں میں وسیع المشرب تھے۔ اقبال کا علم اور وسیع المشربی سرسید سے بھی بڑھی ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنی شاعری میں گوتم بدھ کی تعریف کی ہے۔ گرو نانک کو سراہا ہے، انہوں نے رام کو ’’امام ہند‘‘ کہا ہے، وہ ایک زمانے میں وطن پرست تھے اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا کا گیت ان کے لبوں پر تھا۔ لیکن بہت جلد اقبال کے خیالات میں بھی انقلاب برپا ہوگیا اور انہوں نے برصغیر میں مسلمانوں کی جداگانہ ریاست کا خواب دیکھ ڈالا۔ قائد اعظم جب محمد علی جناح تھے تو وہ کانگریس کے اہم رہنما تھے۔ انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا جاتا تھا، لیکن بہت جلد محمد علی جناح قائد اعظم بن گئے اور انہوں نے صرف سات سال میں پاکستان کے خواب کو تعبیر فراہم کردی۔ برصغیر کے تین بڑی شخصیات کی یہ قلب ماہیت کوئی معمولی بات نہیں۔ اس کی پشت پر ہندو مسلم کش مکش کی پوری تاریخ موجود ہے اور یہ آج بھی مردہ تاریخ نہیں ہے۔ اس تاریخ کے زندہ اور متحرک ہونے کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد اب تک پاکستان کی رہین منت تھی وہ مختصر عرصے میں خالصتاً مقامی تحریک بن گئی ہے، اہم بات یہ ہے کہ اس تحریک کا مرکزی حوالہ پرانی نسل نہیں کشمیر کی نئی نسل ہے۔ میاں صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اس تاریخ کا کوئی شعور نہیں، انہیں معلوم نہیں کہ یہ تاریخ اپنے عنوانات تو بدل سکتی ہے مگر کبھی فنا نہیں ہوسکتی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کا اجتماعی شعور کبھی ہندوؤں کی بالادستی کو قبول نہیں کرسکتا۔ ہندو کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بارہ سو سال تک اچھا غلام تو رہا ہے مگر گزشتہ 80 سال میں وہ کبھی اچھا شریک کار یا اچھا آقا نہیں رہا اور نہ اس کے اندر آئندہ کبھی اچھا آقا بننے کی استعداد ہے۔