ٹرمپ کو ہر ممکن مناسب مشورہ دیا،اوباما کا الوداعی پیغام

242

 

امریکا کے سبکدوش ہونے والے سیاہ فام صدر براک اوباما نے وائیٹ ہاوس میں اپنی الوداعی پریس کانفرنس کے دوران ہلکے پھلکے انداز میں اپنے جانشین کو کئی اہم مشورے دینے کے ساتھ اپنے آٹھ سالہ دور حکومت کے اہم اقدامات کا تذکرہ کیا۔

انہوں نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے امور کی انجام دہی میں میری مدد کی اور کام آسان کیے۔ مجھے بہت سے کاموں کے بارے میں سوچنے اور انہیں صائب طریقے سے کرنے کا موقع فراہم کیا۔انہوں نے صحافیوں کے کردار کو سراہا اور کہا کہ وہ حقیقت کے اظہار اور جمہوریت کے فروغ کے لیے صحافیوں سے اپنے پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی کے تسلسل کی توقع رکھتے ہیں۔

وکی لیکس کو اہم فوجی راز مہیا کرنے والے فوجی اور اپنی جنس تبدیل کرنے والے براڈلی ماننگ کی سزا معاف کرنے کے بارے میں کہا کہ براڈ لی مانینگ نے اعتراف جرم کیا اور اس کے بدلے میں کڑی سزا بھگت لی ہے۔

اب تک اس کا جیل میں سزا کاٹنا کافی ہے۔روس پر حالیہ امریکی پابندیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ ماسکو کے ساتھ دوستانہ اور خوش گوار تعلقات واشنگٹن کے مفاد میں ہیں، مگر امریکا کے بارے میں روس کا معاندانہ طرز عمل اور عالمی بحرانوں پر امریکا کی مخالفت نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کیا۔ انہوں نے کہا کہ روس پر پابندیاں اس کے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ایک سوال کے جواب میں صدر اوباما نے کہا کہ میں نے اپنے جانشین ڈونلڈ ٹرمپ کو ہرصائب مشورہ دیا ہے۔

مجھے توقع ہے کہ جن اقدار پرعمل درآمد کی اپیل کی گئی ہے ڈونلڈ ٹرمپ ان پرعمل کریں گے۔ اگرچہ مجھے ٹرمپ کے بعض بیانات سے خوف بھی ہے۔ توقع ہے کہ ٹرمپ معیشت کی بہتری اور نئی ملازمتیں تخلیق کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔امریکا میں مہاجرین اور غیرقانونی تارکین وطن کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ تارکین وطن کے بچوں کو کسی صورت میں سزا نہیں دی جاسکتی۔

اس ضمن میں ٹرمپ کو بھی کچھ وقت ضرور دیا جانا چاہیے۔صدارت کے بعد وہ کیا کریں گے؟ کے سوال پر صدر اوباما نے کہا کہ وہ اپنی اہلیہ اور دونوں بیٹیوں کے ہمراہ وقت گزاریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں تصنیف وتالیف کی طرف آوں گا۔

میں بعض چیزوں پر خاموشی اختیار کروں گا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ رواں سال اپنی شادی کی 25 ویں سالگرہ منائیں گے۔صدر براک اوباما نے کہا کہ فلسطین اور اسرائیل کی موجودہ صورت حال اسرائیل کے لیے خطرہ اور فلسطینیوں کے لیے آزمائش اور مصیبت کی گھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنازع فلسطین کا حل اور دو الگ ریاستوں کی شکل میں نہیں ہوتا تو یہ بہت بڑی ناکامی ہوگی۔صدر براک اوباما نے کہا کہ فلسطین، اسرائیل میں سے کسی ایک پربھی قیام امن کے لیے طاقت کے استعمال کی راہ اختیار نہیں کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا ہے کہ ان کی مشرق وسطی میں امن کے قیام بارے پالیسیاں مختلف ہیں۔ میں نے ٹرمپ کو بھی فلسطین،اسرائیل تنازع کے باب میں یک طرفہ اقدامات سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔وائٹ ہاوس میں الوداعی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے براک اوباما نے کہا کہ یہ درست ہے کہ بعض اوقات ہم غصے اور مرضی کے مطابق کام نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہیں مگر میں مطمئن ہوں اور پرامید ہوں کہ ہم سب بہ خیریت اپنے فرائض انجام دے کر ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ امریکا میں برائی سے زیادہ اچھائی کا غلبہ ہے۔ اگر ہم محنت اور اخلاص سے کام کریں گے جس پرآپ ایمان رکھتے ہیں تو پوری دنیا آپ کے لیے آہستہ آہستہ اچھی ہوتی جائے گی۔ سچ پوچھیں تو میں بھی اسی پر یقین رکھتا ہوں۔