ٹرمپ کے دور کا آغاز، طوفانوں کے جھرمٹ میں

151

ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم طوفان سے کم نہیں تھی، لیکن اب ٹرمپ کے صدارتی دور کا آغاز، ایک نہیں بلکہ کئی طوفانوں کے جھرمٹ میں ہو رہا ہے۔ کئی دہائیوں کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا کے نئے صدر شدید تنازعات کے ساتھ اپنی معیاد شروع کر رہے ہیں۔
انتخابی مہم اور انتخابی جیت کے بعد، ڈونلڈ ٹرمپ جو گہر افشانی کرتے رہے ہیں اس کے پیش نظر اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی میکسیکو کی سرحد سے لے کر چین تک افق پر تباہ کن طوفان اُمڈ آئیں گے۔ یہ طوفان چار علاقوں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ شمالی کوریا، جنوبی چین کا سمندر، روس کے جنوب کے ممالک اور مشرق وسطیٰ۔
ویسے بھی امریکا میں نئے صدر کی انتظامیہ کی آمد کے وقت، عالمی غیر یقینی کی صورت حال پیدا جاتی ہے لیکن ٹرمپ ایسے منہ پھٹ شخص جن کے بارے میں پیش بینی محال ہو، اس کے بر سر اقتدار آتے وقت، غیر یقینی صورت حال بے حد سنگین ہے اور لا تعداد خطرات سے بھر پور ہے۔
انتخابی مہم کے دوران۔ ٹرمپ نے امریکا کی فوجی قوت پر بے تحاشہ بغلیں بجائی تھیں اور اس پر زور دیا تھا کہ امریکا اپنے حریفوں کے اقدامات کا بھر پور جواب دینے سے نہیں ہچکچائے گا۔ اس صورت میں خطرہ ہے کہ ٹرمپ شمالی کوریا کے جوہری اسلحہ کے پروگرام کو امریکا کے لیے چیلنج قرار دیں۔ شمالی کوریا کے صدر کم نے اس سال کے آغاز پر بڑے واضح طور پر کہا تھا کہ ان کا ملک، بین بر اعظمی (بیلسٹک) میزائل کا تجربہ کرے گا۔ سابق صدر اوباما نے شمالی کوریا کو اس ارادے سے باز رکھنے کے لیے تادیبی پابندیاں عائد کی تھیں لیکن کوئی کامیابی ہوتی نظر نہیں آتی۔ خطرہ ہے کہ ٹرمپ، امریکی قوت کے اظہار کے لیے اچانک کوئی کارروائی کریں جس کے تباہ کن نتائج بر آمد ہوں۔
دوسرا مسئلہ جس پر جنگ کی آگ بھڑک سکتی ہے، وہ جنوبی چین کے سمندر کا ہے۔ جہاں متنازع جزائر پر امریکا کا تو کوئی دعویٰ نہیں ہے لیکن ان جزیروں پر فلپائن کا دعویٰ ہے اور چوں کہ امریکا کا فلپائن سے دفاعی معاہدہ ہے اس لیے اس تنازع سے امریکا کے براہِ راست ملوث ہونے کا خطرہ ہے۔ ٹرمپ نے پہلے ہی ایک چین کی پالیسی کی مخالفت کر کے چین کی مخاصمت مول لے لی ہے جس کے سنگین نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں۔ تجارت میں چین کے توسیعی اقدامات پر ٹرمپ پہلے ہی اپنی ناراضگی ظاہر کر چکے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر مبصرین کو شدید معرکہ آرائی بھڑکنے کا خطرہ ہے۔
اس وقت، روس کی جنوبی سرحد پر پولینڈ میں ناٹو کی فوجی قوت کے اجتماع پر مغربی قوتوں اور روس کے درمیان شدید کشیدگی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ٹرمپ کے اس وقت روسی صدر پیوٹن سے خوش گوار تعلقات ہیں اور اور ٹرمپ ناٹو کو ناکارہ فوجی اتحاد قرار دیتے ہیں، اس لحاظ سے کسی بڑی معرکہ آرائی کا خطرہ نہیں ہے لیکن ٹرمپ کی کابینہ کے بیش تر وزیر ناٹو کی طاقت روس کے خلاف استعمال کرنے کے حق میں ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی کابینہ کے وزیر غالب رہتے ہیں یا ٹرمپ اپنے آپ کو مختار کل ثابت کرنے کے لیے غیر متوقع اقدامات کرتے ہیں۔
اس سے کہیں زیادہ خطرناک صورت حال مشرق وسطی کی ہے۔ ٹرمپ پیمان کر چکے ہیں کہ وہ داعش کا قلع قمع کرنے کے لیے جنگ تیز تر کر دیں گے۔ اس مقصد کے لیے انہیں اس علاقہ میں امریکی زمینی فوج اور بحری اور فضائی قوت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ٹرمپ نے داعش کے خلاف کارروائی کے لیے اگر شام کے ساتھ عراق، اردن اور ترکی میں تیز تر بمباری کی تو اس کی وجہ سے جہاں شہری علاقے تباہ ہوں گے وہاں شہریوں کی بڑی تعداد اپنی جانیں بچانے کے لیے یورپ کا رُخ کرے گی، جس کے نتیجے میں اس پورے علاقے میں خانہ جنگی بھڑکنے کا خطرہ ہے اور پناہ گزینوں کے ایک نئے سیلاب سے یورپ میں عدم استحکام پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
اسی کے ساتھ ، ایران سے کشیدگی میں زبردست اضافہ کا خطرہ ہے۔ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ منسوخ کردیں گے جس کے نتیجہ میں لا محالہ ایران کے ساتھ معرکہ آرائی بھڑک اُٹھے گی۔ غرض بحرانوں اور طوفانوں کا یک جمگھٹا ہے جو ٹرمپ کے دور کے آغاز کا منتظر ہے۔ اس وقت کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ طوفان دُنیا کو کس سمت لے جائیں گے، خاص طور پر جب کہ امریکا کی قیادت، ٹرمپ ایسے رہنما کے ہاتھ میں ہے جس کے اقدامات کے بارے میں کوئی پیش بینی نہیں کی جا سکتی۔