اوباما کا دور: امیدوں کی کہکشاں کی گمشدگی کا دور

144

امریکا کا وہ تاریخی دور ختم ہوگیا جو پہلی بار ایک افریقی امریکی صدر کے انتخاب سے شروع ہوا تھا، جس سے وابستہ امیدوں کی جو کہکشاں اُبھری تھی وہ آٹھ سال بعد ناکامیوں کی تاریکیوں میں گم ہوگئی۔ 2008 میں انتخابی مہم کے دوران، اوباما نے بش کے دور میں قائم کیے گئے گوانتا ناموبے کے عقوبت خانے کو امریکی تاریخ کا افسوس ناک باب قرار دیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ انتخاب جیتنے کے بعد فوراً گوانتا ناموبے کو بند کردیں گے، صدارت کا حلف اُٹھانے کے دو روز بعد انہوں نے اس عقوبت خانے کے 779قیدیوں کے خلاف مقدمات 120روز کے لیے معطل کر نے کا حکم جاری کیا تھا اور اس کے ایک روز بعد انہوں نے گوانتا ناموبے کو ایک سال کے اندر اندر بند کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ اوباما نہ تو اپنی صدارت کی پہلی معیاد میں اور نہ دوسری معیاد میں اپنے اس حکم پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب رہے۔ بلا شبہ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکی کانگریس کی مخالفت تھی جس میں اوباما کو اکثریت حاصل نہیں تھی۔ غرض اوباما کے دور کا آغاز ناکامی پر ہوا اور اب بھی اس عقوبت خانے میں 41قیدی اوباما کے دور پر ماتم کناں ہیں۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ عراق کی جنگ کی مخالفت کی بنیاد پر 2008 میں اوباما کو انتخابی جیت حاصل ہوئی تھی، لیکن برسر اقتدار آتے ہی وہ خود افغانستان کی جنگ میں اُلجھ گئے اور اسی جنگ کو انہوں نے اپنے نام کر لیا۔ یہی نہیں، لیبیا اور شام کی جنگوں میں بھی پیش پیش رہے، جب کہ ان کے بر سراقتدار آنے کے چند ماہ بعد انہیں امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ اس بارے میں خود اوباما کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم نہیں کہ یہ انعام انہیں کیوں دیا گیا اور یقیناًان لوگون کی روحیں بھی سوال کرتی ہوں گی جو اوباما کے دور میں بمباری اور ڈرون حملوں میں ہلاک ہوئے تھے۔ ان کے پیش رو صدر بش کے دور میں پاکستان، یمن اور صومالیہ میں کل 57ڈرون حملے ہوئے تھے لیکن اوباما کے دور میں ڈرون حملوں میں دس گنا اضافہ ہوا، اور تین ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ اسی وجہ سے اوباما کو ’’Drone President‘‘ قرار دیا گیا۔ یہ ستم ظریفی تھی کہ 2009 میں صدارت سنبھالنے کے تیسرے دن، اوباما نے پاکستان پر ڈرون کے پہلے حملہ کا حکم دیا تھا اس کے بعد پاکستان پر کمپیوٹر کے گیم کی طرح ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع ہوا جو ان کے دور کے اختتام تک جاری رہا۔
اوباما نے عراق میں جنگ جاری رکھنے اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں زبردست اضافہ کر تے وقت اس کی وضاحت نہیں کہ وہ جنگ کیوں جاری رکھ رہے ہیں جب کہ انہوں نے جنگ کے خاتمہ کو وعدہ کیا تھا۔ نوبیل انعام یافتہ اوباما کے دور میں ہر سال فوج پر 654ارب ڈالر خرچ کیے گئے جب کہ بش کے دور میں سالانہ 19 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔
توقع تھی کہ اوباما اپنے آپ کو نوبیل امن انعام کا مستحق ثابت کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام میں کامیاب رہیں گے لیکن اسرائیل کی من مانی کارروائیوں اور امریکا میں اسرائیل حامی لابی نے اس مشن میں ناکام ثابت کر دیا۔ حتیٰ کہ ارض فلسطین پر یہودی بستیوں کی تعمیر بھی وہ نہ روک سکے۔ یوں دنیا کی سپر طاقت کے صدر، یکسر بے بس ثابت ہوئے۔
بش کے دور میں عراق کی جنگ کے دوران امریکیوں نے اپنے خلاف مزاحمت کو کچلنے کے لیے۔ مسلکوں کو آپس میں تشدد پر بھڑکانے کا جو عمل شروع کیا تھا، وہ اب بھی جاری ہے۔ اوباما نے اس تباہی کی روک تھام کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ عراق کو تین علاقوں میں تقسیم کرنے کے لیے ایسے حالات پیدا کیے جن کے نتیجے میں داعش معرض وجود میں آئی اور پھر شام سے داعش کی سپاہ نے عراق پر حملہ کیا اور موصل پر قبضہ کیا تو اس وقت اوباما نے داعش کی سپاہ کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی، یوں یہ کہا جاتا ہے کہ داعش کی کامیابیوں کے پیچھے امریکا کا ہاتھ تھا۔
اوباما کے دور میں، قذافی کو اقتدار سے ہٹانے اور لیبیا کے تیل کی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جو تباہ کن فوجی مداخلت کی اور قبائل میں جو بے حساب اسلحہ تقسیم کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پچھلے پانچ برس سے افراتفری جاری ہے۔ دو حکومتیں اور دو پارلیمنٹیں ہیں اور داعش کی سپاہ نے کئی علاقوں پر آسانی سے قبضہ کر لیا ہے۔ ادھر مصر میں انقلاب کے بعد جو منتخب حکومت بر سر اقتدار آئی تھی، امریکا اور اسرائیل کی شہہ پر فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجے میں سیاسی افراتفری برابر جاری ہے۔ غرض مشرق وسطیٰ اس وقت جتنا خطروں میں گھرا ہوا ہے اوباما کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے کبھی اتنا نہیں تھا۔
اوباما کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کے حکم پر امریکی نیوی سیلرز نے پاکستان کی فوجی چھاؤنی کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی کمین گاہ پر حملہ کر کے اسامہ بن لادن کو ان کے بیٹے خالد، دو بھائیوں اور اسامہ کی ایک اہلیہ سمیت ہلاک کر کے اسامہ کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وہ پیمان پورا کردیا جو ان کے پیش رو بش نہ کرسکے تھے۔
ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کو بھی اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں لیکن ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد اس سمجھوتے کی منسوخی کا شدید خطرہ ہے۔
بلا شبہ، طبی سہولتوں کے بارے میں اوباما کے دور کا انقلابی اقدام قرار دیا گیا ہے جس سے دو کروڑ امریکیوں کو فائدہ پہنچا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے پہلا وار اسی نظام پر کیا ہے جس کے بعد خطرہ ہے کہ اوباما کی یہ کامیابی خاک میں مل جائے گی۔
روشن خیال امریکی افریقی صدر اوباما کے دور کے آغاز پر امریکی عوام کو امید تھی کہ اوباما کے دور میں شہری آزادیوں کو فروغ حاصل ہوگا اور امریکی افریقی عوام کو روزگار کے میدان میں ترقی کے وافر موقعے ملیں گے اور وہ نسلی تعصب کے حصار سے نکل سکیں گے لیکن پچھلے آٹھ سال کے دوران ان کی ساری امیدیں دم توڑ بیٹھیں۔ سیاہ فام افراد نے اس دوران اپنے خلاف تعصب کا غیر معمولی طوفان اُٹھتا دیکھا اور پولیس کے تشدد نے بھی بری طرح سے سر اُٹھایا۔ پھر اسلحہ کا مسئلہ بھی ایسا بے قابو ہوا کہ اوباما اس کے سامنے بے بس نظر آئے۔
بہر حال ان ناکامیوں کے باوجود اوباما کا نام ہمیشہ امریکی تاریخ میں جاویداں رہے گا کہ وہ پہلے افریقی امریکی تھے جو صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اور اب ڈونلڈ ٹرمپ ایسے صدر کے برسر اقتدار آنے کے بعد، امریکی عوام ان سے موازنہ کریں گے تو ان کی ناکامیوں کے باوجود اوباما کو روشن خیال اور ترقی پسند صدر کی حیثیت سے یاد رکھیں گے۔