(طلبہ کی خود کشی: مخلوط نظام تعلیم ہی نہیں، سماجی رویے بھی ذمے دار ہیں(قاضی عمران احمد

158

گزشتہ 2 برس کے دوران ملک کے مختلف شہروں میں معصوم بچوں کے خودکشی کے 3 واقعات منظر عام پر ا?ئے جن میں حال ہی میں اسلام ا?باد میں ساتویں جماعت کے طالب علم کی خودکشی کا واقعہ اس حوالے سے اہم ہے کہ یہ خودکشی استاد کی ’محبت‘ میں ’مبتلا‘ ہو کر کی گئی۔ اس واقعے کے بعد جہاں مخلوط نظام تعلیم کو ااس کا ذمے دار ٹھہرایا جا رہا ہے وہیں اس طرح کے واقعات کے پیچھے دیگر عوامل بھی کار فرما ہیں جن میں سب سے اول ٹیکنالوجی، جدیدیت، ماڈرن ازم، کیبل سسٹم اور ہیرو ازم شامل ہیں۔ ا?ج جب ہم ایک ایسے معاشرے کی جانب بڑھ رہے ہیں کہ جس میں طرز زندگی ماضی کے مقابلے میں بہت سہل ہو چکا ہے اور ہمارے بچپن کی نسبت ہمارے بچوں کو زیادہ سہولتیں حاصل ہیں تو مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان جو مستقبل کے معماروں کو پہنچ رہا ہے وہ ان کی ’تربیت‘ کا ہے، اب نہ وہ والدین ہیں اور نہ ہی اساتذہ کرام 133 تربیت کی ’ذمے داری‘ تو اب ذرائع ابلاغ نے ’سنبھال‘ لی ہے۔ خاندانی نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ماضی کی بہتر تربیت گاہ سرکاری تعلیمی ادارے تو انتہائی زبوں حالی کا شکار ہیں اور نجی تعلیمی ادارے تربیت نہیں ’تجارت‘ میں مصروف ہیں، تربیت تو دور کی بات یہاں تو تعلیم بھی اچھی نہیں مل پاتی۔ ہر گھر میں کیبل موجود ہے، پہلے بھارتی چینلز ماحول کی خرابی کے ذمے دار گردانے جاتے تھے تو اب پاکستانی ڈرامے بھی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں۔ سوشل میڈیا ’ہیرو ازم‘ کو فروغ دے رہا ہے اور بچوں کو غیر معمولی طرز زندگی دکھا رہا ہے۔ تربیت کا ا?غاز ہمیشہ گھر سے ہوتا ہے۔ پہلے مشترکہ خاندانی نظام میں ماں، باپ، دادا، دادی، چچا، پھوپھی سب مل کر بچوں کی تربیت کرتے اور ان کے افعال پر نظر رکھتے تھے۔ اب ’علیحدہ‘ رہتے ہیں، بچوں کو اسکول میں داخل کرا دیا، تربیت کی ذمے داری اسکول کی تصور کر لی گئی، باقی وقت ٹیوشن بھیج دیا گیا، جان چھڑانے کے لیے ان کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون دے دیے گئے، کمپیوٹر گیمز کی ’سہولت‘ فراہم کر دی گئی۔ گھر میں ایک دوسرے سے بے خبر تمام افراد ایک دوسرے کے مسائل کیا جانیں گے کہ سب اپنے فون میں ’سوشل میڈیا‘ کے سحر میں مبتلا نظر ا?تے ہیں۔ بچے جو محبت کے بھوکے ہوتے ہیں جب انہیں گھر سے توجہ نہیں ملتی، اچھا برا سمجھایا نہیں جاتا، ان کی غلطیوں پر ٹوکا نہیں جاتا، اچھے کاموں پر شاباش نہیں دی جاتی تو وہ اپنی دل چسپی کے لیے ’اِدھر اْدھر‘ نکل جاتے ہیں اور پھر وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر ’انتہا پسندی‘ کی طرف بھٹک جاتے ہیں۔ نجی اسکولوں میں 1500 سے 2 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پانے والی زیر تربیت خواتین اساتذہ کی جن کی نہ عمر ہوتی ہے اور نہ ہی تجربہ، اپنے مقام اور مرتبے سے ناواقف ’ماڈرن ڈریس‘ میں ’بے تکلفی‘ کے ساتھ پڑھاتی ہیں تو پھر ’غلط فہمیاں‘ جنم دیتی ہیں اور طالب علم طالب عشاق بن جاتے ہیں۔ تیزی سے بڑھتے ایسے منفی عوامل اور بچوں میں خود کشی کے بڑھتے رجحان کی وجوہات جاننے کے حوالے سے چند ماہرین سے کی گئی گفتگو شامل تحریر ہے۔