پاناماکیس: حسن اور حسین نواز کے وکیل کے دلائل مکمل

176

سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق آئینی درخواستوں پر سماعت ہوئی اور حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم نے اپنے دلائل  مکمل کرلیے ۔عدالت نے اگلی سماعت میں چیئرمین نیب اور چیئرمین ایف بی آر کو طلب کرلیا ۔

تفصیلات کے مطابق  جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس گلزاراحمد، جسٹس شیخ عظمت سعید ، جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس اعجازالاحسن  پر مشتمل عدالت عظمی کا پانچ رکنی لارجر بینچ  پاناما کیس کی سماعت ہوئی۔

کیس میں درخواست گزاروں کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں جب کہ وزیراعظم کے صاحبزادوں حسن اور حسین نوازکے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل سمیٹتے ہوئے  منروا کمپنی کیساتھ سروسزکاریکارڈعدالت میں پیش کیا۔

سلمان اکرم نے  عدالت میں موقف اختیار کیا کہ مریم نواز کےبینفیشل مالک ہونےکی جعلی دستاویزعدالت میں جمع کروائی گئی اور یہ دستاویز کون کہاں سے لایا،کچھ علم نہیں،لگتا ہے موزیک والی دستاویزات فراڈ کر کے تیار کی گئیں اور مریم نےبھی کہا ہے کہ دستاویز پر دستخط ان کے نہیں۔

جسٹس عظمت نے ریمارکس دیتےہوئے کہا کہ دستاویزات سےثابت کریں کہ حسین نوازکمپنیاں چلا رہے تھے اور جودستاویزات آپ دکھارہےہیں وہ آف شورکمپنیوں کےڈائریکٹرزکےنام ہیں، سوال یہ ہے کہ نیلسن اور نیسکول کا ڈائریکٹر کون تھا۔

وکیل نے جواب میں کہا کہ منروا کمپنی نے نیلسن اور نیسکول کو اپنے ڈائریکٹرز دیے، فیصل ٹوانہ حسین نوازکی جانب سےمنرواکمپنی سےڈیل کرتےتھے، حسین نواز نے فیصل ٹوانہ کو بطور نمائندہ مقرر کیا تھا اور منرواکمپنی کوادائیگیوں کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کردی گئیں ہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو تفصیلات بتاتے ہوئےکہا کہ تمام دستاویزات گزشتہ رات لندن سے منگوائی ہیں اور ریکارڈعدالت میں جمع کروادیا ہے۔

جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حسن اورحسین نواز نےکب اورکتنےجوابات جمع کرائے؟ وکیل نے کہا کہ زیادہ ترجوابات مشترکہ طور پر جمع کرائے گئے ہیں۔

سلمان اکرم راجہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جولائی2006میں منرواکمپنی کےنام رجسٹرڈ شیئرز جاری ہوئے، فروری2006سےجولائی2006تک مریم نوازبطورٹرسٹی شیئرہولڈررہیں اور شیئرزسرٹیفکیٹ مریم نواز کے پاس رہے جب کہ بیریئرسرٹیفکیٹ کی منسوخی سےمریم نوازکی بطورشیئرزہولڈرزحیثیت ختم ہوگئی ، 2014 میں شیئرزمنرواسےٹرسٹی سروسزکومنتقل ہوگئے۔

جسٹس کھوسہ نے استفسارکرتے ہوئے کہا کہ حسین نوازنےسرٹیفکیٹ منسوخ کرائےیامریم نےاس سےفرق نہیں پڑتا لیکن  جولائی2006میں بیریئرسرٹیفکیٹ کی منسوخی کیلئےحسین نوازگئےیامریم نواز؟

عدالت کا کہنا تھا کہ مریم اگرحسین نوازکےنمائندےکےطورپرکام کرتی تھیں تواس دستاویزکوبھی دیکھناہے اور حسین نوازکےپاس لندن میں مہنگی جائیدادوں کیلئےسرمایہ کاری کوبھی دیکھناہے۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا شیئرز ٹرانسفر ہونے سے ٹرسٹ ڈیڈ ختم ہو گئی، حسین نوازکےپاس اتنی مہنگی جائیدادلینےکیلئےسرمایہ نہیں تھا؟ یہ دستاویز آخر آئی کہاں سے؟

حسن اور حسین نواز کے وکیل نے جوات دیتے ہوئے کہا کہ سرٹیفکیٹ منسوخی سے ٹرسٹ ڈیڈ ختم نہیں ہوئی ، یہ دستاویزٹرسٹ ڈیڈہےجوحسین نوازاورمریم نوازکےدرمیان2006میں ہوئی اور جائیداد قطری سرمایہ کاری کے بدلے حسین نواز کو ملی۔