(آؤ نہ ہم بھی سیر کریں(ظہیر خان

79

’’سرد موسم تھا ہوائیں چل رہی تھیں برف بار‘‘ اور میں دیوارِ چین کی سیر کررہا تھا۔ دیوارِ چین جانے کا یہ میرا چوتھا اتفاق تھا۔ اکثر چین کاروباری سلسلہ میں جاتا رہا ہوں۔ کام دوسرے شہروں میں ہوا کرتا تھا مگر اﷲ خوش رکھے اور صحت مند رکھے ہمارے فیکٹری مالک اور میرے محسن جناب دانش مند خان صاحب کو جن کی مہربانیاں اور احسانات مجھ پر ہمیشہ بے شمار رہے ہیں۔ میرے سیر و سیاحت کے شوق کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ کام کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی جانے کی مجھے اجازت تھی تاکہ وہاں کی بھی سیر کی جاسکے۔ اس سے قبل تین مرتبہ دیوارِ چین جا چکا تھا ‘ دوبار موسمِ سرما میں ایک بار تیز بارش میں اور ہر مرتبہ مختلف پوائنٹ پر گیا تھا۔ یہ میرا چوتھا چکّر تھا اور پوائنٹ بھی چوتھا۔
لفظ دیوار سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی اونچی سی دیوار ہوگی مگر ایسا نہیں ہے در حقیقت یہ پہاڑ کے اوپری حصّہ پر تعمیر کی ہوئی ایک طویل سڑک ہے جو پہاڑ کی چوٹی کے نشیب و فراز کے مطابق ہے اب پہاڑ سیدھا تو ہوتا نہیں کہ سڑک بھی سیدھی سیدھی بنے اسلام آباد کی طرح لہٰذا بل کھاتے ہوئے پہاڑ کی طرح سڑک بھی بل کھاتی ہوئی ہے سڑک کی چوڑائی 12 فٹ اور اس کی کل لمبائی 13170 میل ہے اس کے ایک طرف (جدھر منگولیا ہے) 6 فٹ اونچی اور دوسری طرف (جوھر چین ہے) 4 فٹ اونچی دیوار ہے منگولیا اور چین کے درمیان طویل پہاڑی سلسلہ ہے۔
دیوار بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ دراصل منگولیئن اکثر چین پر حملہ آور ہوا کرتے تھے۔ لہٰذا بادشاہِ وقت نے حکم دیا کہ پہاڑ کے اوپری حصّہ پر ایک طویل سڑک بنائی جائے تاکہ اس کی فوجیں سڑک پر گشت کریں اور اگر منگولئین ادھر آنے کا قصد کریں تو انہیں بآسانی بھگایا جاسکے۔ یہ کام 221 قبل مسیح شروع ہوا تھا مگر مکمل اسے بعد کے بادشاہوں نے کیا۔ آپ کو یہ بات جان کر حیرت ہوگی کہ چار لاکھ افراد جن میں بیشتر سپاہی تھے کام کے دوران حادثے کا شکار ہوئے اور موت کی نیند سوگئے اور اسی دیوار میں مدفون ہیں۔ سڑک کے تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر بڑی بڑی فوجیوں کی اقامت گاہیں ہیں جن میں فوجی رہا کرتے تھے۔ ہر تھوڑی دور کے بعد سیڑھیاں ہیں اوپر تک آنے جانے کے لیے ایک مرتبہ میں نے ہمّت کی اور انہی سیڑھیوں سے اوپر گیا بس نہ پوچھیے حال برا ہوگیا سیڑھیوں کے قدم ایک فٹ کے ہیں۔ لہٰذا ہر پانچ منٹ کے بعد دو گھونٹ پانی پینا پڑتا تھا۔
یہ تمام تعمیرات پتھروں سے کی گئی ہے اس دور میں اتنے بھاری بھاری پتھروں کا پہاڑ کی چوٹی تک لے جانا اور پہاڑ کاٹ کر اس پر سڑک تعمیر کرنا کتنا حیرت انگیز کارنامہ تھا جو چینی قوم نے کر دکھایا آج کے دور میں جب کہ اور شعبوں کی طرح شعبۂ تعمیرات میں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی نے بے پناہ ترقی کر لی ہے دیوارِ چین جیسی تعمیرات کرنا ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے چینی دیوارِ چین کو GREAT WALL کہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص چین آتا ہے اور اس نے GREAT WALL نہیں دیکھا تو یوں سمجھ لو کہ اس نے چین نہیں دیکھا۔ چینی دیوارِ چین کو GREAT WALL اس لیے کہتے ہیں کہ ان کے دلوں میں اس کی بڑی عظمت ہے انہیں فخر ہے کہ دنیا کے سات عجائبات میں اس کا شمار ہے کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب انسان چاند پر گیا اور اس نے ایک طائرانہ نگاہ زمین پر ڈالی تو اسے کچھ اور تو نظر نہ آیا صرف دیوارِ چین نظر آئی۔ سیّاحوں کی آمد کی سب سے بڑی وجہ اس دیوار کی حیرت انگیز تعمیر ہے۔ ساری دنیا سے سیّاح یہاں آتے ہیں اور لاکھوں ڈالر چین کو دیکرجاتے ہیں دیوارِ چین چین کی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے یہ بات بھی آپ کو متحیّرکرنے والی ہے کہ روزانہ اوسطاً ستّر ہزار سیّاح دیوارِ چین دیکھنے آتے ہیں۔ اس وقت میری حیثیت بھی ایک سیّاح کی تھی دیوارِچین تک جانے کی جستجو میں لفٹ چیئر کا ٹکٹ خرید کر قطار میں کھڑا تھا۔ اسٹیشن پر چھوٹے چھوٹے اسٹال تھے جن پر گرم کپڑوں کی بہار تھی اور چینی خواتین دکاندار تھیں۔ ہر دکان پر خریداری ہورہی تھی کیونکہ ہر کسی کو اپنی صحت کی فکر تھی میں نے بھی کنٹوپ مفلر اور اور دستانے یہیں سے خریدے۔
اسٹیشن پر ہی سردی شدید تھی اس سے اندازہ ہو چلا تھا کہ اوپر پہاڑ کی چوٹی پر کتنی ٹھنڈک ہوگی۔ لفٹ چیئر روانہ ہوئی اور ہم تھوڑی ہی دیر میں پہاڑ کی چوٹی یعنی دیوارِ چین پر تھے۔ سردی شدید تھی دانت بج رہے تھے مگر حیرت اس بات کی تھی کہ وہاں ہزاروں کا مجمع تھا۔ غیر ملکی سیّاحوں کے علاوہ چینی اچھی خاصی تعداد میں تھے۔ میں چین میں جن جن تفریح گاہوں پر گیا ہوں ہر جگہ یہی حال نظر آیا ہے دن کی بھی کوئی قید نہیں کہ چھٹی ہی کا دن ہو تو رش ملے گا ہر روز ہر جگہ رش رہتا ہے۔ چینی قوم سیر و تفریح کی دلدادہ ہے۔ اتنی شدید سردی میں میرا دیوارِ چین جانا بس یوں سمجھ لیں کہ یہ میرا شوق تھا جو مجھے وہاں کھینچ کر لے گیا تھا۔ وہاں کچھ اور نہیں کرنا تھا سوائے ٹہلنے اور تصویر بنوانے کے سب یہی کر رہے تھے میں بھی یہی کررہا تھا غرضیکہ ٹہلتے رہے اور تصویر بنواتے رہے۔ ظہر کا وقت ہوگیا واش روم کا بہترین انتظام تھا صاف ستھرا اور گرم اس کے علاوہ پانی بھی گرم، سکون سے وضو کیا باہر آکے معقول جگہ تلاش کی اور نماز ادا کی (دورانِ سفر قبلہ رخ دیکھنے کے لیے میری جیب میں ہمیشہ قطب نما ہوتا ہے) نماز سے فارغ ہو کر پیٹ پوجا کی فکر ہوئی ریسٹورنٹ تو تھے۔ مگر چکّر حلال اور حرام کا تھا۔ لہٰذا چند بسکٹ اور چپس پر گزارا کر لیا۔
واپسی کے لیے دو طریقہ تھے یا تو لفٹ چئیریا پھر وہ چھوٹی سی سیٹ جس پر پیر پھیلا کر بیٹھا جاسکتا تھا اور اس کے نیچے لگی ہوئی ریل کی پٹری نما ٹریک پر پھسلتے ہوئے نیچے آنا تھا بس یوں سمجھ لیں جیسے بچّوں کا پھسل منڈا، لیکن یہ بھی اندازہ کرلیں کہ پہاڑ کی چوٹی جس کی اونچائی تقریباً ایک ہزار فٹ ہے اتنی اونچائی سے پھسلنا اور پھر راستے کے پیچ و خم، بس نہ پوچھیے اس وقت کیا کیفیت تھی میں نے اس پھسلنے والی سیٹ کو ترجیح دی۔ میرے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ ایک ساتھ دس یا بارہ سیٹیں چلتی تھیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہوئی۔ ہر سیٹ پر ایک شخص ہوتا تھا، سیٹوں کو روکنے کے لیے بریک سسٹم تھا جس کا ہینڈل سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص کے ہاتھ میں تھا۔ کچھ سیٹوں پر خواتین کا بھی قبضہ تھا جب سیٹوں نے پھسلنا شروع کیا اور کسی موڑ سے تیزی سے پھسلتیں تو عورتوں کی چیخیں نکل جاتیں اور وہ گھبراہٹ میں بریک کا ہینڈل کھینچ لیتیں نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کی سیٹ کے رکتے ہی پیچھے کی تمام سیٹیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہوئی رُک جاتیں اور اچھا خاصا قہقہوں کا شور بلند ہوجاتا۔ بس اسی طرح چیختے چلاّتے اور قہقہے لگاتے ہم سب نیچے یعنی گراؤنڈ اسٹیشن پر آگئے۔
اب میں کسی بھی چینی سے دعوے کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے تمہارا چین چار مرتبہ دیکھا ہے۔