(سفر حیات (مریم شہزاد

87

’’ارے آپ خالی ہاتھ آگئے؟‘‘ مہوش نے شہود کو خالی ہاتھ آتے دیکھ کر سوال کیا۔ شہود ابھی نماز پڑھ کر آیا تھا اور مہوش نے اس سے کہا تھا کہ آتے ہوئے روٹی اور دہی لیتے آیئے گا، اور شہود پڑوس والے شہریار صاحب کے ساتھ مسجد سے باتیں کرتے ہوئے نکلا تو یاد ہی نہیں رہا اور گھر آگیا۔ اب مہوش نے پوچھا تو پھیکی سی ہنسی ہنس دیا۔
’’چلیں کوئی بات نہیں، تھوڑی سی روٹی ہے اور ڈبل روٹی بھی ہے ابھی کا تو کام ہو ہی جائے گا۔‘‘ مہوش نے کہا تو شہود فوراً ہی بولا ’’ہاں ٹھیک ہے، اسی بہانے صبح ہم بڈھا بڈھی حلوہ پوری کا ناشتا کرلیں گے۔۔۔‘‘ اور دل ہی دل میں شکر ادا کیا، کیوں کہ اب اس عمر میں دوبارہ سیڑھیاں چڑھنا اترنا اتنی جلدی مشکل لگتا تھا۔
دونوں نے رات کا کھانا کھایا اور حسبِ معمول تھوڑی سی چہل قدمی کے لیے باہر ٹیرس میں آگئے۔
ٹیرس میں ہلکی ہلکی خنکی ہونے لگی تھی۔ نومبر اختتام پذیر تھا اور اب دونوں کی عمر بھی ایسی ہوگئی تھی کہ سردی جلدی لگنے لگتی تھی۔ مہوش نے شہود سے کہا ’’اندر آجایئے، ایسا نہ ہو کہ دونوں میں سے کوئی بیمار ہوجائے تو دوسرے کا کام بڑھ جائے، تیمارداری کرنی نہ پڑجائے۔‘‘
شہود نے ہنستے ہوئے کہا ’’ہاں یہ نہیں کہتی کہ بڑے میاں اب عمر نہیں ٹھنڈ میں بیٹھنے کی۔‘‘
’’چلیں یونہی سہی، آپ بڑے میاں تو میں بڑی بی، خوش!‘‘ مہوش بولی اور دونوں ہی ہنستے ہوئے اندر آگئے۔ مہوش نے گھڑی دیکھی تو صرف 9 بجے تھے، ٹی وی سے دونوں کو ہی کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی، ہمیشہ سے ہی بلکہ اب تک بھی دونوں مختلف دینی و دنیاوی سرگرمیوں میں ہی وقت گزارتے تھے، یا پھر پڑھنے لکھنے میں۔ ابھی بھی اندر آکر دونوں نے ایک دوسرے کو دن بھر کی روداد سنائی، پھر شہود نے اپنی کتابیں سنبھالیں اور مہوش بھی اپنا لکھنے کا کام لے کر بیٹھ گئی۔
یہ نہیں کہ دونوں تنہا تھے، ماشاء اللہ چار بچے تھے اور سب ہی بہترین زندگیاں گزار رہے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ماں باپ ان کے ساتھ رہیں، مگر مہوش اور شہود ان کی لائف ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بچوں کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے کے لیے دونوں نے بہت محنت کی تھی۔ بچوں کی پہلی سالگرہ سے ہی مہوش نے ان کی پاکٹ منی، عیدی وغیرہ جمع کرنا شروع کردی تھی اور ساتھ ساتھ خود بھی کمیٹی ڈال رکھی تھی، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اچھے اسکول میں داخلہ آسان کام نہیں۔ نہ صرف اچھے اسکولوں میں تعلیم دلائی بلکہ ساتھ ساتھ قرآن اور دینی باتیں اور بہترین تربیت کے لیے بھی مہوش نے دن رات ایک کردیا۔ اور آج بچے باوقار شہری تھے۔ پورا ہفتہ بچے اپنے گھروں میں مگن رہتے مگر ہفتے کے دن سب ان کے ہاں جمع ہوتے۔ بہو، بیٹیاں اور ان کے بچے صبح ہی سے آجاتے۔ مہوش کچن سنبھالتی اور بیٹیاں ماں سے دل کا حال کہنے میں مصروف ہوجاتیں، اور شہود کبھی نانا بن جاتے تو کبھی دادا۔ اس دن تو ان کی خوشی کا پوچھو ہی نہیں۔ رات کو بیٹے اور داماد بھی آجاتے تو رونق دوبالا ہوجاتی۔ رات گئے سب اپنے گھر لوٹ جاتے اور پورا دن خوشیوں کے تانے بانے میں گزر جاتا اور وہ دونوں اللہ کا شکر ادا کرتے کہ ان کے بچے آپس میں شیر و شکر رہتے ہیں۔
اور پھر اتوار سے دونوں کو ہفتے کا انتظار شروع ہوجاتا، مگر دونوں نے دل ہی دل میں طے کیا ہوا تھا کہ کوئی بھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائے گا، یہی وجہ تھی کہ شہود نے بھی اب تک خود کو غمِِ روزگار میں لگایا ہوا تھا تو مہوش بھی اپنے آپ کو کہیں نہ کہیں لگائے رکھتی۔ کبھی درس میں جارہی ہے تو کبھی قرآن فہمی کی کلاس میں، کبھی کسی کی عیادت کو جارہی ہے تو کبھی کسی کو مبارک باد دینے۔مگر اب کچھ دنوں سے دونوں کے دلوں میں یہ خوف سر اٹھانے لگا تھا کہ میرے بعد دوسرے کا کیا ہوگا؟ ابھی تو ہم ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں۔۔۔ دل ہی دل میں دونوں سوچتے کہ دوسرے کو سمجھائیں گے میرے بعد پریشان نہ ہونا۔
ایک دن شہود نے مہوش سے پوچھ ہی لیا ’’اگر میں پہلے چلا گیا تو تم اکیلے کیسے رہو گی؟‘‘
مہوش، جو خود بھی اس موضوع پر بات کرنا چاہ رہی تھی، ہنس کر بولی ’’اور اگر میں پہلے چلی گئی تو؟‘‘
شہود ناراض ہوتے ہوئے بولا ’’اللہ تمہیں لمبی زندگی دے۔‘‘
’’دیکھا دے دی ناں بددعا۔‘‘ مہوش ہنس کر بولی اور پھر سنجیدگی سے کہا ’’اچھا سنیں، یہ روٹھنا منانا چھوڑیں، سنجیدگی سے بات کرتے ہیں۔‘‘
’’لیجیے جناب، ہوگئے سنجیدہ، اور کوئی حکم؟‘‘ شہود نے کہا۔
’’دیکھیں ہم سب کو ہی جانا ہے اور میں پہلے یا آپ، یہ دونوں کو نہیں پتا، تو ہم جیسے آج تک سب کاموں کی پلاننگ کرتے ہیں تو کیا ایک دوسرے کے لیے آخرت کی پلاننگ نہیں کرنی چاہیے؟‘‘ مہوش نے سوالیہ انداز میں اپنی بات شروع کی۔
’’ہم آگے کی پلاننگ۔۔۔؟‘‘ شہود نے پوچھا۔
مہوش جانتی تھی کہ شہود اس سے بہت محبت کرتا ہے اور کسی صورت اس کی موت کا تذکرہ نہیں سن سکتا، اس لیے وہ الفاظ کے چناؤ میں بہت احتیاط سے کام لے رہی تھی۔ آج شہود نے بات خود چھیڑ دی تھی تو اس کا بھی حوصلہ ہوگیا تھا۔ اب وہ شہود کو سمجھانا چاہ رہی تھی کہ ’’سب سے پہلے تو ہم دونوں کو ایک دوسرے سے وعدہ کرنا ہوگا کہ ایک دوسرے کے غم کو دل سے نہیں لگائیں گے، بلکہ کوشش کریں گے کہ ایسے کام کریں جو اس کی آخرت سنوار دے۔‘‘
’’جیسے۔۔۔؟‘‘ شہود نے پوچھا۔
’’جیسے روزانہ قرآن پڑھ کر ثواب پہنچانا، صدقۂ جاریہ کے لیے کوئی کام کرنا، قضا نمازوں کا فدیہ، خیرات وغیرہ۔۔۔ اگر مناسب لگے تو گھر میں مدرسہ اور ٹیوشن سینٹر بنا لینا تاکہ بچوں کو بھی بے فکری ہو کہ گھر میں ہمارے پاس کوئی نہ کوئی ہر دم ہوتا ہی ہے، اور جو بچے گھر پر علم کے حصول کے لیے آئیں اُن کو آرام سے گھر کی اشیا استعمال کرنے دیں، یہ نہیں کہ نشانی ہے۔ جب ہم ہی نہ ہوں گے تو چیزیں سنبھال کر کیا کریں گے! دلوں میں زندہ ہونا چاہیے۔‘‘
شہود نے کہا ’’بالکل ٹھیک۔۔۔‘‘ پھر مہوش کو چھیڑنے کے انداز میں کہا ’’میں تو سوچ رہا ہوں کہ ایک گھر سنبھالنے والی بھی لے ہی آؤں گا۔‘‘
مہوش مصنوعی غصے سے آنکھیں دکھاتے ہوئے بولی ’’کیا کہا۔۔۔؟ ذرا دوبار تو کہیے گا۔۔۔‘‘
اور دونوں ہی ہنس پڑے۔ مہوش نے دل میں سوچا اور پھر مسکرا کر کہا ’’ایسا بھی ہوجائے تو کوئی برائی نہیں۔۔۔‘‘
nn