(شوریلی زمین اور شراب پسند انسان(سید مہر الدین افضل

146

1آیت نمبر 58,57 میں اِرشاد ہوا :۔ (اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو اَپنی رَحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہے، پِھر جب وہ پانی سے لَدے ہوئے بادل اٹھالیتی ہیں، تو انہیں کِسی مردہ سر زمین کی طرف حرکت دیتا ہے، اور وہاں مینہ برسا کر اسی مری ہوئی زمین سے طرح طرح کے پھل نِکال لاتا ہے۔ دیکھو، اِس طرح ہم مردوں کو حالت موت سے نکالتے ہیں، شاید کہ تم اِس مشاہدے سے سبق لو۔ جو زمین اَچھی ہوتی ہے، وہ اَپنے ربّ کے حکم سے، خوب پَھل، پھول لاتی ہے، اور جو زمین خراب ہوتی ہے، اس سے ناقِص پیداوار کے سِوا کچھ نہیں نکلتا۔ اِس طرح ہم نشانیوں کو بار بار پیش کرتے ہیں، ان لوگوں کے لیے، جو شکر گزار ہونے والے ہیں۔)
رِسالت اور بارش
اس مثال سے رسالت اور اس کی بر کتوں کا، اور اس کے ذریعے سے اچھائی اور برائی میں فرق، اور پاک و ناپاک کے واضح ہو جانے کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ رسول کی آمد اور خدائی تعلیم و ہدایت کے نزول کو بارانی ہواؤں کے چلنے، اور اَبرِ رحمت کے چھا جانے، اور اَمرِت بھری (زندگی سے بھر پور) بوندوں کے بَرسنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ پھر بارش کے ذریعے سے، مردہ پَڑی ہوئی زمین کے یکا یک زِندہ ہو جانے، اور اِس کے پیٹ سے زِندگی کے خزانے ابل پڑنے کو، اس حالَت کے لیے بطور مِثال پیش کیا گیا ہے، جو نبیؐ کی تعلیم و تربیت اور رہنمائی سے، مردہ پَڑی ہوئی اِنسانیت کے یکا یک جاگ اٹھنے، اور اس کے سینے سے بھلائیوں کے خزانے، ابل پڑنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، اور پھر یہ بتایا گیا ہے کہ جِس طرح بارش کے نَزول سے یہ ساری برکتیں، صِرف اسی زمین کو حاصل ہوتی ہیں، جو حقیقت میں ذرخیز ہوتی ہے اور صرف پانی نہ ملنے کی وجہ سے جس کی صلاحیتیں دَبی رہتی ہیں، اِسی طرح رِسالت کی ان بَرکتوں سے بھی، صرف وَہی اِنسان فائدہ اٹھاتے ہیں، جو حقیقت میں صالح ہوتے ہیں اور جِن کی صَلاحیتوں کو صِرف رَہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے، نمایا ں ہونے اور کام میں آنے کا موقع نہیں ملتا۔
زندگی بعد موت
بارش اور اِس کی بَر کتوں کے ذِکر سے اِس مقام پر اَللہ سبحانہ و تعا لیٰ کی قدرتِ کامِلہ کا بیا ن کیا گیا ہے، اور اِس سے سبق لینے کی ہدایت کی گئی ہے، آئیے دیکھتے ہیں کہ اِس میں کون کون سے سبق موجود ہیں، سب سے پہلا سبق یہ ہے کہ اللہ موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ ہم اپنی زندگی میں بار بار دیکھتے ہیں کہ، کِس طرح مردہ زمین، بارش ہوتے ہی، زِندہ ہو جاتی ہے۔۔۔ اور اِس میں سے طرح طرح کے پودے اور بے شمار دوسرے جاندار پیدا ہوتے ہیں۔۔۔ اِسی طرح پہلے اِنسان سے لے کر آخری اِنسان تک سب کا ایک ساتھ زندہ ہو جانا بھی خالق کائنات کے بس ایک اِشارے کا منتظر ہے۔
مایوس نہ ہو
آخرت پَر یقین کے ساتھ یہ آیت ہمیں مایوس نہ ہونے کا سبق دیتی ہے اور یہ امید دِلاتی ہے کہ جس طرح اللہ کے ایک حکم سے بارش ہوتی ہے اور زمین میں دبے ہوئے بے شمار بیج زندہ ہو جاتے ہیں!!! بڑھتے ہیں اور پھلتے، پھو لتے ہیں!!! اِسی طرح ہماری زندگی بھی ایک حکم کی منتظِر ہے۔۔۔ فرد کے لیے پیغام یہ ہے، کہ کوشش اور محنت جاری رکھے، اور جِس شعبے میں وہ آگے بڑھنا اور کام کرنا چاہتا ہے، اس کا علم حاصل کرے، کیونکہ جس طرح بیج میں جِتنی جان ہوتی ہے اتنا ہی بارش اسے فائدہ پہنچاتی ہے، اِسی طرح فرد میں جِتنی جان ہو گی یعنی اس کے اَخلاق جِتنے اَچھے ہوں گے۔۔۔ اس کا عِلم جتنا پختہ ہو گا اور وہ اَپنے فن میں جِتنا ماہر ہو گا اَللہ سبحانہ و تعالٰی کی جانب سے ملِنے والے موقع سے وہ اتنا ہی فائدہ اٹھا سکے گا۔۔۔ اَکثر دیکھا گیا ہے کہ بہت سے اَفراد جنہیں یہ شکایت ہوتی ہے کہ انہیں حالات نے موقع نہیں دیا یا لوگوں نے نا انصافی کی ان کی زندگی میں جب فیصلہ کن موقع آتا ہے، انہیں کوئی چانس مِلتا ہے، وہ اِس سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔۔۔ کیونکہ وہ تیار ہی نہیں تھے، یا حوصلہ ہار چکے تھے۔۔۔ جِس طرح فرد کے معاملے کو ہم نے بیج کی مِثال سے سمجھا اِسی طرح اِجتماعیت اور امت کو ہم زمین کی مِثال سے سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ جو زمین بارش کے پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ بارش سے فائدہ اٹھاتی ہے اور جو سخت، پتھریلی زمین ہوتی ہے اس پر سے پانی گزر جاتا ہے، اَور وہ اسی طرح خالی رہتی ہے جیسے پہلے تھی۔ اِس لیے ضروری ہے کہ جو لوگ اِجتماعی جِد و جہد اور امت کے اَحیا کے لیے کام کر ہے ہیں، وہ زمین کی تیاری کے کام پر توجہ دیں، زمین تیار ہو، تو اسے زِندگی ملِنا اور پھَلنا اور پھولنا اَللہ سبحانہ و تعا لیٰ کے ایک اِشارے کی بات ہے ۔
شوریلی زمین اور شرارت پسند اِنسان
شَرارَت پسند اور خَبیث اِنسان کی مِثال خراب زمین سے دی گئی ہے کہ جِس طرح شوریلی زمین بارانِ رحمت سے، کوئی فائدہ نہیں اٹھاتی، بلکہ پانی پڑتے ہی اپنے پیٹ، کے چھپے ہوئے زہر کو کانٹوں اور جھاڑیوں کی صورت میں اگل دیتی ہے، اسی طرح، رسالت کے ظہور سے اِنہیں بھی کوئی نفع، نہیں پہنچتا بلکہ اِس کے بَر عَکس ان کے اَندر دَبی ہوئی تمام خباثتیں ابھر کر پوری طر ح کام کرنے لگ جاتی ہیں۔ یہاں اَبو جِہل، اَبو لَہب، امیّہ بِن خَلف، عُتبَہ، شَیبہ، نضَر بن حارث، عُقبیٰ بِن اَبی مُعیط اور ہند ہ جیسے خَبیث لوگ ہیں جِنہو ں نے کَسوٹی کے سامنے آتے ہی اَپنی ساری کھوٹ نمایا ں کر کے رکھ دی۔۔۔۔ یہاں نفرَت، دَغا، اَور خود غرَضی ہے۔۔۔ جھوٹ، وَعدہ خِلافی اَور کرپشن ہے۔ اِنسانوں کو فِرقوں، گروہوں، نسلوں میں تقسیم کرکے نفرت پھیلانے اور دشمن بنانے کی کوشش ہے۔
اچھی زمین اَور صالح اِنسان
ہر زمانے میں، نبی کی بِعثَت کے بعد، اِنسانیت دو حِصّوں میں تقسیم ہوتی رہی ہے۔ ایک طرف حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت اَبو عُبیدہؓ بن جرّاح، حضرت بلا لؓ، حضرت خدیجہؓ اور حضرت سُمیّیہؓ جیسی پاکیزہ ہَستیاں ہیں جو فیضِ رسالت سے پھَلی اور پھولیں اور دنیا کو گُڈ گوَرنینس کی بہترین مثال دے گئیں۔۔۔ جِن کے فیض سے آج بھی اِنسان فیض یاب ہے اور مزید حاصل کر سکتا ہے۔ یہاں محبَت، وَفا، اور اِیثار و قربانی ہے۔۔۔ صَداقت، اَمانت، اور پاسِ عَہد ہے۔۔۔ تمام اِنسانوں کو ایک پیار بَھرا خاندان بنانے کی کوشش ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آخرکا ر شرارت پسندوں کو ٹھیک اسی طرح چھانٹ کر پھینک دیا گیا!!! جِس طرَح سنار چاندی سونے کے کھوٹ کو، چھانٹ پھینکتا ہے۔ اور صالح اور پاکیزہ انسانوں کو کام کرنے کا موقع دیا گیا۔
آج کا اِنسان وَحی و رِسالت
سے کیسے فائدہ اٹھائے؟
اِس سورۃ میں اِسلام کے بنیادی عقائد اور اَخلاق کی تعلیم،آخرت کا اَنجام، اور اَللہ تَعَالٰی کی قدرتِ کاملہ کے بیان کے بعد اِنسانوں کی تاریخ کے اَہم واقعات بتائے گئے ہیں، جِن میں حضرت نوحؑ ، حضرت ہودؑ ، حضرت صالحؑ ، حضرت شعیبؑ ، حضرتموسیٰؑ ، کی قَوموں کا ذکر ہے جِس کا مَقصد یہ بتانا ہے کہ پیغمبر کی دعوت کو جھٹلانے کا کیا اَنجام ہوتا ہے۔۔۔ آج کا انسان وَحی و رسالت سے کیسے فائدہ اٹھائے؟ قرآن موجود ہے، اِس میں کسی کو شک نہیں کہ یہ وہی کتاب ہے جو حضرت محمدؐ دے کر گئے تھے۔۔۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ پہلے اِنسانوں کے دِلوں میں قرآن کے بنیادی عقائد کا بیج ڈالا جائے، پھر سیرتِ طیبہ پر عمل کرتے ہوئے وحی ورسالت کے فیض کو عام کیا جائے۔
اَللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو اَپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اِس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین۔