(مصر کی صورت حال (ڈاکٹر محمد اقبال خلیل

81

ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاور
(تیسری اور آخری قسط)
قدیم مصر کی پہچان جہاں اہرام مصر ہے جس کو دیکھنے کے لیے اب بھی لاکھوں سیاح دنیا کے کونے کونے سے قاہرہ پہنچتے ہیں، وہاں جدید مصر کی پہچان نہر سویز اور اسوان ڈیم بھی ہیں، جن کی معاشی طور پر بہت اہمیت ہے۔ لیکن سیاسی اور نظریاتی لحاظ سے مصر کی ایک اور پہچان وہاں کی احیائے اسلام کی تحریک اخوان المسلمون ہے جو 89 سال گزرنے کے بعد بھی مصری عوام اور جوانوں کے دلوں کی دھڑکن بنی ہوئی ہے۔ 1928ء میں اسکول کے ایک استاد حسن البناء نے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر دعوت و اصلاح کے لیے جس تحریک کی بنا رکھی تھی وہ اب بھی زندہ و توانا ہے اور مصری عوام کی اکثریت اس کو دل و جان سے پسند کرتی ہے اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہے۔ اور جب بھی مصر میں آزادانہ انتخابات ہوئے ہیں ان میں اخوان ہی کے عوام کے نمائندے قرار پائے ہیں۔ اخوان المسلمون مصر میں مسلسل ابتلاء و آزمائش میں مبتلا رہی ہے، اس کے باوجو اس کی مقبولیت اور چاہنے والوں میں کمی نہیں آئی، بلکہ اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔ اور ہر سختی و عقوبت کے دور کے بعد مزید توانا اور طاقتور بن کر ابھری ہے۔ چند افراد سے بننے والی یہ تنظیم مخلصانہ جدوجہد اور باصلاحیت قیادت کی بدولت پھلتی پھولتی رہی اور آہستہ آہستہ پورے مصر میں اس کی شاخیں پھیل گئیں۔ علمی اور اصلاحی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ خدمتِ خلق کا کام بھی سرانجام دیتی ہوئی یہ تنظیم کچھ ہی عرصے میں ایک بڑی سماجی و اصلاحی تحریک کا روپ دھار گئی جس نے مصری معاشرے کے سنجیدہ اور تعلیم یافتہ طبقات کو متاثر کیا۔ اس نے جلد ہی غریب، مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی اپنے ہاتھ میں لے کر مزدور اور طلبہ کو اسلامی تعلیمات اور انقلابی سوچ عطا کردی۔ اُس دور میں جبکہ مصر پر برطانوی استعمار کی بادشاہت تھی آزادی اور استقلال کے ایک نئے جذبے سے اخوان المسلمون نے نوجوانوں کو سرشار کیا۔ یہی دور تھا جب فلسطین میں یہودیوں کے پنجے گڑوانے کے لیے بین الاقوامی سازش جاری تھی جس کے خلاف فلسطینی مسلمان، مفتیِ اعظم فلسطین امین الحسینی کی قیادت میں جدوجہد کررہے تھے۔ چنانچہ اخوان نے اپنے پڑوسی فلسطینی بھائیوں کی امداد و تعاون کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ امام حسن البناء جو اَب لاکھوں مصری نوجوانوں کے قائد بن چکے تھے، اربابِ اقتدار کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے اور 1948ء میں ان کو شہید کردیا گیا۔ لیکن ان کی شہادت سے اخوان کی تنظیم ختم نہیں ہوئی، بلکہ جو نظریہ، تنظیمی ڈھانچہ اور شورائی نظام وہ قائم کرچکے تھے، ان کے قابل رفقا نے فوری طور پر سنبھال لیا اور ان کے رفیقِ خاص حسن الہضیبی نے مرشد عام کی ذمہ داری سنبھال کر اخوان المسلمون کو مزید فعال اور طاقتور بنادیا۔ انہوں نے مصر میں شریعت کے نظام کے قیام کو اپنا مقصد قرار دیتے ہوئے جدوجہد کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ 1948ء ہی میں اخوان المسلمون کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا گیا، اس کے تمام رہنماؤں کو گرفتار کیاگیا اور تنظیم کو خلافِ قانون قرار دے دیا گیا۔
1952ء میں مصر میں فوجی انقلاب آیا اور نوجوان فوجی افسران نے ’’آزاد افسران تحریک‘‘ کے نام سے جنرل نجیب اور کرنل جمال عبدالناصر کی سرکردگی میں حکومت قائم کی، جن کو شروع میں اخوان المسلمون کی بھی حمایت حاصل تھی۔ لیکن جلد ہی نئی قیادت جس میں خود بھی پھوٹ پڑ چکی تھی اور جمال عبدالناصر بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کا خواہش مند تھا، اس کی آمریت کے راستے میں اخوان ایک رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ اس لیے 1954ء میں بے سروپا الزامات لگاکر ایک بار پھر اخوان المسلمون پر پابندی لگا دی گئی اور اس کی پوری قیادت گرفتار کرلی گئی۔ مصری جیلیں ہزاروں اخوانی کارکنان سے بھر گئیں اور ان سے غیر انسانی اور ظالمانہ سلوک کیا گیا جس کی کہانیاں ساری دنیا میں مشہور ہیں۔
اخوان کے ایک اور رہنما اور جلیل القدر اسکالر سید قطب بھی عالمی سطح پر ایک معروف شخصیت تھے جو حکومتی عتاب کا شکار بنے۔ ان کی شہرۂ آفاق تفسیرِ قرآن ’’فی تدبرالقرآن‘‘ عالم اسلامی میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تفسیر ہے۔ ان کی کئی کتب میں سے ایک المعالم فی الاطریق (جادہ و منزل) کی بنیاد پر، اسلام کی اس نابغۂ روزگار شخصیت کو بھی عبدالقادر عودہ اور دیگر کئی اہم شخصیات سمیت پھانسی دے دی گئی۔ اور اس طرح عالم اسلام ان قیمتی افراد کی خدمات سے محروم کیا گیا۔ البتہ ان کی تحریروں سے پھوٹنے والی علم و صدق کی روشنی تا قیامت مسلمان نوجوانوں کے ذریعے سارے عالم میں جگمگاتی رہے گی۔ ان شاء اللہ
1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد جب مصر پر جمال عبدالناصر کا چھایا ہوا جادو ٹوٹا اور اس کی طویل آمریت کا دور مصر کی شکست و ریخت کے ذریعے ختم ہوا تو 1970ء میں انورالسادات نے کرسئ صدارت سنبھالنے کے بعد اخوان کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور ہزاروں اخوانی رہنما اور کارکن جو جیلوں میں طویل عرصے سے عقوبتیں بھگت رہے تھے، رہا کردیے گئے اور اخوان المسلمون کو قدرے آزادی سے اپنی دعوت اور سماجی سرگرمیاں بحال کرنے کا موقع ملا۔ لیکن حسن الہضیبی اور ان کے بعد عمرالتلمسانی کے ادوار میں بھی دعوت و رشد کا یہ سلسلہ جاری تھا اور اخوان کا کام مصر سے نکل کر بلادِ عرب میں پھیلتا چلا گیا اور کئی ملکوں میں ان کی شاخیں قائم ہوگئیں جنہوں نے آزادانہ طور پر اپنے ملکوں میں کام کیا جن میں اردن، مراکش، تیونس، لیبیا، شام،سوڈان وغیرہ شامل ہیں۔
مصر میں انورالسادات کے دور میں بھی اخوان المسلمون پر پابندی برقرار رہی، البتہ محدود پیمانے پر ان کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ جب انورالسادات نے 1979ء میں اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے پر دستخط کیے تو پوری دنیائے عرب میں اس کے خلاف شدید ردعمل ہوا۔ مصر کو عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس تنظیم سے نکال دیا گیا اور اس کو عربوں کا غدار قرار دیا گیا۔
6 اکتوبر1981ء کو الجہاد نامی ایک تنظیم کے رکن نے انورالسادات کو فوجی پریڈ کے دوران گولی مارکر ہلاک کردیا اور اس طرح اس کا دور بھی ختم ہوا اور حسنی مبارک کا دور شروع ہوا۔
حسنی مبارک نے بھی اپنے دورِ صدارت کے آغاز میں اخوان کے ساتھ مفاہمت کا عندیہ دیتے ہوئے ان اخوانی رہنماؤں کو آزاد کیا جن کو انورالسادات کے دور کے آخر میں گرفتارکیا گیا تھا، جن میں مرشدِ عام عمر تلمسانی بھی شامل تھے۔
1987ء میں جب حسنی مبارک نے صدارتی انتخاب جیتا تو اخوان نے اس کی مخالفت نہ کی، بلکہ اپنے دعوتی و تنظیمی نیٹ ورک کے پھیلاؤ پر توجہ مرکوز کی۔ اسی دور میں عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں کا بھی پھیلاؤ ہوا اور امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے عرب ممالک کے طلبہ میں اخوانی لٹریچر بڑے پیمانے پر پڑھا جانے لگا اور ہر جگہ اسلامی تنظیمیں اور انجمنیں اس کے زیراثر بنتی چلی گئیں۔ خود مصر میں طلبہ، نوجوانوں، ڈاکٹروں، انجینئروں اور دیگر پیشہ ورانہ تنظیموں میں اخوانی کارکنان قیادت کے درجے پر آتے چلے گئے اور انہوں نے غیر سرکاری خدمتِ خلق کے اداروں، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کا ایک جال بچھا دیا۔
اس دوران سیاسی محاذ پر بھی اخوان نے پیش رفت کی، انہوں نے اپنے آپ کو غیر جمہوری طرزعمل اور تشدد کی سرگرمیوں سے محفوظ کرتے ہوئے قانون کی بالادستی اور ملکی آئین و دستور کے احترام کا لائحہ عمل اختیار کیا۔ 2000ء کے انتخابات میں اخوان نے آزاد حیثیت سے اپنے امیدوار کھڑے کیے اور تمام تر حکومتی ہتھکنڈوں کے باوجود 17نشستیں حاصل کیں، اور پھر 2005ء کے انتخابات میں 88 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے ملکی سیاست میں ایک اہم پوزیشن حاصل کرلی۔ لیکن حسنی مبارک نے اخوان کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کرتے ہوئے 2010ء کے انتخابات میں ہر قسم کی حکومتی کارروائیوں کے ذریعے اخوان کو حصہ لینے سے روک دیا۔ حالانکہ یہی دور تھا کہ اخوان المسلمون نے اپنے آپ کو ایک جمہوری اور سیاسی جماعت کے طور پر متعارف کرایا اور وہ دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر مصر میں ایک جمہوری نظام کے قیام کے لیے کوشاں تھی۔ اس نے قبطی عیسائیوں کے ساتھ بھی اپنے روابط استوارکیے اور ان کے چرچوں کے قیام اور انتظام میں تعاون بھی پیش کیا۔ اسی طرح مغربی حکومتوں کے ساتھ بھی اخوان المسلمون نے رابطے کیے اور ان کے ساتھ مبارزت اور مقابلے کی کیفیت کو ختم کیا۔ البتہ نظریۂ اسلام کے ساتھ اخوان المسلمون کی کمٹمنٹ غیر مشروط تھی اور اس کا اظہار وہ ہر فورم پر کرتی رہی۔ لیکن حسنی مبارک کو یہ پسند نہ تھا کہ اخوان المسلمون کی قیادت مصر میں ایک متبادل قیادت کے طور پر ابھرے اور مغرب کے ساتھ کام تعلقات استوار کرے۔ وہ تو تاحیات صدارت کا خواہشمند تھا اور اپنے بعد اپنے صاحبزادے کو منصب اقتدار پر دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے آئینی ترمیم کے ذریعے سرکاری طور پر اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر پابندی لگائی اور اسی طرح آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے پر بھی قدغن عائد کی، تاکہ اخوانی نمائندے کسی بھی طریقے سے پارلیمنٹ میں نہ آسکیں۔ اسی طرح اُس نے بلدیاتی انتخابات بھی اس ڈر سے نہ کرائے کہ اخوان المسلمون کے لوگ مقامی انتخابات پر اچھی طرح سے اثرانداز ہوسکتے تھے۔
2008ء سے 2010ء کے دوران اخوان کے خلاف ایک اور حکومتی کریک ڈاؤن شروع ہوا اور ہزاروں کی تعداد میں کارکنوں اور رہنماؤں کو پکڑ کر ایک بار پھر زندانوں میں ڈال دیا گیا۔ لیکن اس دوران اخوان ایک عالمی نظریاتی تحریک کے طور پر پوری دنیا میں متعارف ہوچکی تھی۔ صرف مصر میں اس کے ارکان کی تعداد کا اندازہ دو ملین سے زیادہ کا تھا اور ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے میں اس کی شاخیں قائم ہوچکی تھی۔ دنیا کے تمام اہم شہروں میں اس کے نمائندے اور ارکان موجود ہیں۔ اس کے اثرات کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں جب روسی استبداد اور کمیونسٹ نظام کے خلاف جہادی سرگرمیوں کا آغاز ہوا تو جولوگ ان سے منسلک ہوئے ان کو اخوانی کہا جاتا تھا، اور اب تک یہ اصطلاح وہاں استعمال ہوتی ہے۔ صرف برصغیر ہندوپاک میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت اسلامی قائم کرکے ایک عظیم الشان اسلامی تحریک برپا کی، اس لیے یہاں اخوان کی اصطلاح مستعمل نہ ہوسکی، لیکن مولانا مودودیؒ اور امام حسن البناؒ کی اسلامی تحریکیں اپنے مقاصد میں ہم آہنگی کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک ہی تحریک سمجھی جاتی ہیں، جبکہ دونوں کی اٹھان مختلف سرزمینوں پر مختلف انداز میں ہوئی لیکن دونوں کی رہنمائی کا سرچشمہ قرآن و حدیث ہی ہے، اس لیے مماثلت فطری ہے۔
2011ء میں بالآخر تیونس سے شروع ہونے والی عرب بہار کی شاندار عوامی بیداری کی تحریک نے حسنی مبارک کے طویل اقتدار کا دھڑن تختہ کردیا اور وہ محل سے جیل منتقل ہوگیا۔ عرب بہار کی تحریک میں اخوان المسلمون نے بنیادی کردار ادا کیا، لیکن فرنٹ پر آنے سے اس لیے گریز کیا تاکہ حسنی مبارک کو اس پر ہاتھ ڈالنے کا موقع نہ مل سکے۔ لیکن جب عبوری دور میں قیادت کا خلا پیدا ہوا تو اخوان المسلمون نے یہ خطرہ بھانپتے ہوئے کہ سیاسی خلا کے نتیجے میں نئے سرے
(باقی صفحہ 5 پر ملاحظہ فرمائیں)