(پیام گل (توقیر عائشہ

89

’’صاحب! یہ دیکھیے کس صفائی سے جڑوں سمیت پودا نکالا ہے‘‘۔ فیض مالی نے اشعر کو قریب آتے دیکھ کر کہا۔ ’’ہاں! ٹھیک ہے۔ چلو اسے باہر لے چلو۔‘‘
وہ پودا اٹھاکر اُس کے ساتھ چل تو دیا مگر اسے باہر لگانے میں ابھی بھی ہچکچا رہا تھا۔ ’’میں تو اب بھی کہتا ہوں صاحب، اسے باہر نہ لگائیں۔ کوئی چلتا پھرتا اسے اڑا لے گا‘‘۔ اشعر نے لاپروائی سے کہا ’’ارے نہیں بابا! یہ کوئی کچی بستی تھوڑی ہے۔ سبھی کے گھروں کے باہر سبزہ لگا ہے، پھول لگے ہیں۔ کون لے جائے گا اسے بھلا۔۔۔!‘‘ اور اپنی نگرانی میں گیٹ سے باہر بنی سبزے کی پٹی پر ایک مناسب سی جگہ منتقل کردیا۔ عمدہ قسم کے سرخ گلاب کے پودے اشعر کے دوست نے لاڑکانہ سے بھیجے تھے۔ کچھ پودے تو اس نے گھر کے اندر لگالیے تھے مگر یہ ایک پودا وہ باہر لگانا چاہتا تھا۔ یہ ایک پوش علاقہ تھا جہاں دن میں بھی سناٹے کا راج رہتا تھا۔ گھروں کے دروازے اسی وقت کھلتے جب کسی گاڑی کو اندر داخل ہونا ہوتا، یا باہر نکلنا ہوتا۔ صاف ستھری سڑکیں، ہر گھر کے آگے سبزہ اور پھولوں کے لہلہاتے پودے، بعض گھروں میں شوقیہ اعلیٰ نسل کے کتے بھی پلے ہوتے، لیکن اتنے مہذب کہ کسی کے لان میں جاکر روشیں خراب نہ کرتے۔۔۔ بس کچھ بھاگ دوڑ کرتے اور اپنے لیے رکھے گئے ملازم کے ساتھ گھروں کو واپس ہوجاتے۔
اشعر جب اپنے گھر سے نکلتا تو اپنے پودے کے پاس ضرور ٹھیرتا۔ پودے نے نئی زمین کو قبول کرلیا تھا۔ نئے پتے آنے لگے تھے۔
ایک دن اشعر نے دیکھا کہ پتوں کے بیچ دو نئی کلیاں بھی سر اٹھا رہی ہیں، یعنی چھ سے سات دن میں پھول اپنی بہار دکھانے والا تھا۔ اس کو ایک انوکھا خیال آیا۔ چھ ہی دن تو باقی ہیں، اگر قدرت ساتھ دے تو وہ 14فروری کو اپنے پودے کا پہلا گلاب اپنے ہاتھوں سے ماہم کو پیش کرے گا۔ اس کی شادی کو تین سال کا ہی عرصہ تو ہوا تھا۔ اب تو اس کے پاس جیتی جاگتی گڑیا وردہ بھی تھی۔ وہ اپنی اس چھوٹی سی فیملی کے ساتھ اس دن کو یادگار بنانا چاہتا تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کے لیے بھی بہت خوبصورت سرخ نیٹ کی فراک خرید رکھی تھی۔
جوں جوں کلی نمایاں ہورہی تھی اشعر کے دل کی کلی بھی کھلتی جا رہی تھی۔ شام کو دفتر سے واپسی پر گاڑی سے اترا تو ڈرائیور سے کہنے لگا : ’’بس اب دیکھنا صبح تک یہ گلاب کھل چکا ہوگا‘‘۔ ڈرائیور ’’جی صاحب‘‘ کہہ کر گاڑی لاک کرنے لگا۔ گھر کے ماحول میں جاکر اشعر وقتی طور پر اپنے پودے کو بھول گیا۔
شومئ قسمت نہ جانے کہاں سے ایک آوارہ کتا جو کئی دن سے آس پاس کی گلیوں میں گھوم رہا تھا، اس گلی میں آن ٹپکا۔ وہ دوپہر سے ہی اس گلی میں ڈیرہ ڈالے بیٹھا تھا۔ گھروں کے چوکیدار گیٹ بند کرکے اندر بیٹھے تھے۔ کبھی کوئی گاڑی سبک رفتار سے گزر جاتی۔ ماحول کتے کے لیے بڑا سازگار تھا۔ کچھ دیر وہ اشعر کے بیرونی لان کے باہر کھڑا اپنی پیلی پیلی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔ پھر اس کی توجہ نئے کھلے گلاب کی طرف ہوگئی۔۔۔ اپنی آنکھوں کو ترچھا کیا، سر موڑا، ہر زاویے سے پرکھا۔ نہ جانے کیوں سرخ رنگ دیکھ کر اسے بہت تیز بھوک کا احساس ہوا۔ وہ سرخ گلاب جسے صبح کی شبنم سے غسل کرکے اپنے پورے جوبن پر آنا تھا، ایک جھٹکے سے اُس کے غلیظ دانتوں کے بیچ میں آگیا تھا۔ شاید کتے نے اس کو گوشت کا ٹکڑا سمجھا تھا۔ اس نے پھول کو بھنبھوڑا، لیکن جب اس کا مزا بوٹی جیسا نہ پایا اور کانٹوں نے بھی مزاحمت کی تو وہیں اگل دیا اور اپنے پیروں سے اردگرد کے مزید پودے کچلتا ہوا پنجوں سے چپ چپ کی آوازیں نکالتا آگے بڑھ گیا۔
صبح اتوار تھا۔ مالی کے آنے کا دن۔۔۔ سب سے پہلے مالی کی نظر روش کی تباہی پر پڑی۔ چوکیدار نے بھاگم بھاگ اشعر کو اطلاع دی۔ وہ ناشتا ادھورا چھوڑ کر باہر آگیا۔ ’’اوہ! یہ کیا ہوا۔۔۔ یہ آج پورا کھل جانا تھا۔۔۔‘‘ اس نے افسوس سے کہا۔ فیض مالی نے کہا ’’صاحب! میں نے تو آپ کو منع کیا تھاکہ گھر کے باہر اتنا اچھا گلاب نہ لگوائیں، اسے کوئی نہیں رہنے دے گا۔ اندر ہوتا تو محفوظ ہوتا‘‘۔ چوکیدار نے رائے ظاہر کی کہ یہ تو کسی جانور کا کام لگتا ہے۔ پھول توڑ کے سارا پودا توڑ دیا۔
اسی وقت شور کی آواز پر سب نے سر اٹھا کر دیکھا۔ دو گھر چھوڑ کر ہاشمی صاحب کے چوکیدار نے لان میں گھسے آوارہ کتے کو ڈنڈا مارکر نکالا تھا اور وہ چیختا ہوا سڑک پہ بھاگ رہا تھا۔
اشعر افسردگی کے ساتھ گھر میں داخل ہوا۔ ماہم وردہ کو گود میں لیے سامنے ہی کھڑی تھی۔ اپنے بابا کو دیکھ کر بچی نے ہاتھ آگے پھیلا دیے۔ وردہ کو اپنی گود میں لیتے ہوئے وہ نہایت سنجیدہ تھا۔ اس کے ذہن میں ایک ایسا خیال آیا تھا جس سے وہ سر سے پاؤں تک کانپ گیا۔ بچی کو سینے سے لگا کر ماہم سے کہنے لگا ’’آج میری پھول سی بچی کو سرخ فراک نہ پہنانا۔ باہر کتا گھوم رہا ہے۔ کہیں کوئی۔۔۔‘‘ اس سے آگے وہ کچھ نہ بول سکا۔