(کبھی غلطی آپ ہی کی ہوتی ہے،آپ سمجھتے نہیں۔۔۔۔(شہناز پروین

74

ایک خاتون سے ہوائی اڈے پر جہاز کے انتظار میں وقت نہیں کٹ پا رہا تھا۔ کچھ سوچ کر دکان سے جاکر وقت گزاری کے لیے ایک کتاب اور بسکٹ کا چھوٹا ڈبا خریدا اور انتظار گاہ میں جاکر کتاب پڑھنے لگی۔ اس خاتون کے ساتھ والی دوسری کرسی پر ایک اور مسافر بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کررہا تھا۔ ان دونوں کے درمیان میں لگی میز پر رکھے بسکٹ کے ڈبے سے جب خاتون نے بسکٹ اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اسے یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ اس ساتھ بیٹھے مسافر نے بھی اسی کے ڈبے سے ایک بسکٹ اٹھا لیا اور مزے مزے سے کھانے لگا۔ خاتون کا غصے کے مارے برا حال ہورہا تھا، لیکن یہ سوچ کر اس نے مسافر کو منع نہیں کیا کہ کسی کو کھانے سے روکنا اچھی بات نہیں۔ اس نے سوچا کہ ہوسکتا ہے وہ دو تین بسکٹ کھاکر ہاتھ روک دے۔ لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ جیسے ہی وہ ڈبے سے ایک بسکٹ اٹھاتی، مسافر بھی بے فکری سے دوسرا اٹھا لیتا۔
جب ڈبے میں آخری بسکٹ بچا تو خاتون مسافرکے دل میں یہ بات جاننے کی شدید خواہش آموجود ہوئی کہ اب یہ بدتمیز اور بداخلاق شخص کیا کرتا ہے؟ کیا وہ اب بھی اس آخری بسکٹ کی طرف ہاتھ بڑھائے گا، یا یہ آخری بسکٹ اس کے لیے رکھ چھوڑے گا؟
اس کی حیرت اپنے عروج پر جا پہنچی، جب مسافر نے اس آخری بسکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے آدھا خود اٹھالیا اور آدھا اس کے لیے چھوڑ دیا۔
اپنی اہانت محسوس کرتے ہوئے خاتون آدھا بسکٹ وہیں ڈبے میں چھوڑ کر، کتاب کو بند کرتے ہوئے، اٹھ کر غصے سے پاؤں پٹختی امیگریشن سے ہوتی ہوئی جہاز میں جا بیٹھی، پھر سیٹ پر بیٹھ کر عینک نکالنے کے لیے دستی بیگ کھولا تو یہ دیکھ کر حیرت سے اس کی جان ہی نکل گئی کہ اس کا خریدا ہوا بسکٹ کا ڈبا تو جوں کا توں تھیلے میں رکھا ہوا ہے۔
ندامت اور شرمندگی سے اس خاتون کا بُرا حال ہوگیا۔۔۔ اب اسے پتا چلا کہ وہ ہوائی اڈے پر بسکٹ اس شخص کے ڈبے سے نکال کر کھاتی رہی تھی!!
***