کائنات اپنی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ اس نے اپنی شادی کی ہر چیز اپنی پسند سے لی تھی۔ وہ شروع سے تیز مزاج اور ضدی تھی، ماں کے غیر ضروری لاڈ پیار اور باپ کی دولت نے اسے خودسر بنادیا تھا۔
بچپن سے بڑے ہونے تک اس کے والدین اس کا ہر جائز و ناجائز مطالبہ پورا کرتے رہے۔ اسے پڑھنے کا شوق تو تھا ہی نہیں، کیونکہ اس کے اساتذہ اسے فرمائشی نمبروں سے پاس نہیں کرتے تھے حالانکہ وہ مہنگے تحفے تحائف دے کر اپنے استادوں کو خوش کرنے کی کوشش بھی کرتی، لیکن دو بار امتحان میں فیل ہونے کی وجہ سے چھٹی جماعت سے ہی اس نے تعلیمی سلسلہ ختم کردیا تھا۔ اب وہ شادی کے بندھن میں بندھنے جارہی تھی۔ ماں باپ کی لاڈلی تھی لہٰذا بڑی فرمائشوں کے ساتھ جہیز بنایا تھا۔ پورے خاندان میں اس کے مہنگے اور خوب صورت جہیز کا چرچا تھا۔
کائنات کا غرور اور گھمنڈ تو آسمان کو چھو رہا تھا۔ ان کے خاندان کے افراد غریب تھے اور سسرال بھی متوسط طبقے کا تھا۔ کائنات کی ایک طلاق یافتہ خالہ بھی اپنی بیٹی کے ساتھ اسی گھر میں رہتی تھیں۔ کائنات کی کوشش تھی کہ اس کی خالہ کا اس سے سامنا نہ ہو اور خالہ اس کی شادی کے کسی سامان کو ہاتھ نہ لگائیں۔ اس کا خیال تھا کہ کسی طلاق یافتہ اور بیوہ کا اس کے نکاح میں شامل ہونا اس کے لیے منحوس ثابت ہوسکتا ہے۔ اس نے اپنی والدہ کو تاکید کی تھی کہ خاندان کی کسی بیوہ اور طلاق یافتہ کو دعوت نہ دی جائے، اور خالہ سے بھی دور رہنے کو کہہ دیں ورنہ میں نکاح کے وقت انکار کردوں گی۔
اس کی والدہ شش و پنج میں پڑ گئیں۔ بہن بھی عزیز تھی لیکن بیٹی کی ضد سے بخوبی واقف تھیں۔ خیر اللہ نے اس کی والدہ کی مشکل آسان کردی۔ کائنات کی ساری باتیں خالہ نے سن لی تھیں۔ اب خالہ نے خود کو بیماری کا بہانہ بناکر اپنے کمرے تک محدود کرلیا تھا۔ شادی کی ہر تقریب میں من مانی کرتے ہوئے آخرکار کائنات رخصت ہوگئی۔ انتہائی قیمتی جہیز کی وجہ سے سسرال والوں نے کائنات کا شاندار استقبال کیا۔ ایک ہفتے میں ہی کائنات نے رنگ دکھانے شروع کردیے۔ اس کی ضد اور ہٹ دھرمی کو کچھ دن تو سسرال والوں نے برداشت کرلیا لیکن پھر وہی لڑائی جھگڑے شروع ہوئے۔ ہر ہفتے وہ ناراض ہوکر میکے آجاتی تھی۔ اس کی والدہ بھی بیٹی کا بھرپور ساتھ دیتیں۔
کائنات کا شوہر سلیم ایک سمجھ دار اور سلجھا ہوا شخص تھا، اس لیے روز اسے منا کر لے جاتا۔ اسی دوران اللہ نے اسے ایک خوب صورت بیٹی سے نوازا، لیکن اب اس نے شوہر سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔ اس کی والدہ نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ ان کی نصیحت سننے کی عادی ہی نہیں تھی، لہٰذا ان کی نصیحتیں کسی کام نہیں آئیں۔ اس نے خودکشی کرنے کی کوشش کی، بڑی مشکل سے اس کی جان بچی۔ شوہر کی کوششیں بھی رائیگاں گئیں تو اُس نے کائنات کو طلاق دے دی۔
اب والدہ کا اس سے رویہ بدل گیا۔ باپ نے بھی توجہ دینا چھوڑ دی۔ سب اس کی ہٹ دھرمیوں سے عاجز آگئے تھے۔ کائنات نے بھی اس بات کو محسوس کرلیا۔
گاؤں سے ان کے کسی دور کے رشتے دار نے جب کائنات کا رشتہ مانگا تو وہ فوراً تیار ہوگئی۔ سادگی سے نکاح کردیا گیا اور وہ گاؤں چلی گئی۔ سب کو لگ رہا تھا کہ اب وہ بدل گئی ہوگی، لیکن اس کی تیز زبان اور من مانیوں کی وجہ سے اگلے ہی مہینے اسے طلاق دے کر روانہ کردیا گیا۔ جب وہ میکے آئی تو سب نے اسے قصوروار ٹھیرایا، اسے طرح طرح کے طعنے بھی سننے کو ملے۔ اب وہ ٹوٹ سی گئی تھی۔ بڑی خاموش اور تنہائی پسند ہوگئی تھی۔ کائنات کی انھی خالہ کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی۔ خالہ نے بڑی محبت سے کائنات کو دعوت دی اور کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی کو تم اپنے ہاتھوں سے دلہن بنا کر رخصت کرو۔
کائنات کو اپنی شادی کے وقت کے الفاظ یاد آگئے۔ وہ سوچنے لگی کہ خالہ کی تو ایک بار طلاق ہوئی تھی، لیکن مجھے تو دو بار طلاق ہوئی ہے۔ وہ سوچوں میں گم تھی کہ خالہ کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ وہ خالہ سے لپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ بار بار معافی مانگ رہی تھی، کیونکہ اس کی سمجھ میں آگیا تھا کہ کبھی کسی کی طلاق کسی طلاق شدہ کی شادی کی رسومات میں شرکت سے نہیں ہوتی بلکہ اس کی ضد، ہٹ دھرمیوں، بے جا مطالبات اور برداشت کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ غرور و تکبر کو پسند نہیں فرماتا۔ انسان پر برائی اور مصیبت اس کے اعمال کی وجہ سے آتی ہے۔
خالہ کے معاف کرنے کے بعد اس نے اللہ سے بھی گڑگڑا کر معافی مانگی اور اپنی خالہ کی بیٹی کو بڑی محبت اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔
اب کائنات کا مزاج بالکل بدل گیا ہے۔ وہ ہر وقت اپنی بیٹی کی بہترین تربیت میں لگی رہتی ہے، کیونکہ اچھی تربیت ہی ان کے مستقبل میں گھر سنوارنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔