اردو ہے جس کا نام

235

اس زبان میں پورے برصغیر کی وحدت اور تنوع کلام کررہا ہے۔ کیا انگریزی یا برصغیر کی کوئی اور زبان ہمارے لیے یہ کام کرتی ہے، کررہی ہے یا کرسکتی ہے؟
اردو نے ڈھائی سو تین سو سال میں شعر و ادب کی جتنی بڑی روایت پیدا کی ہے اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ اردو کی شعری روایت اتنی بڑی اور متنوع ہے کہ فارسی کی شعری روایت کے سوا اسے دنیا کی کسی بھی شعری روایت کے سامنے رکھا جاسکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس شعری روایت نے برصغیر کے کسی ایک خطے کے مزاج کو جذب اور آشکار نہیں کیا بلکہ اس نے برصغیر کے کئی خطوں کے مزاج کو اپنا حصہ بنا کر دکھایا ہے۔ انگریزی کیا برصغیر کی کوئی اور زبان بھی یہ کارنامہ انجام دے سکی ہے یا دے سکتی ہے؟۔ ہم کہتے ہیں کہ اردو کے بڑے شاعر تین ہیں۔ یعنی میر، غالب اور اقبال۔
یہ بات درست ہونے کے باوجود آدھی بات ہے۔ اس کے لیے اردو شاعری کی روایت غزل کی روایت ہے۔ غزل کہنا آسان بھی ہے اور دشوار بھی۔ غزل کی آسانی نے گزشتہ ڈھائی سو سال میں لاکھوں لوگوں کو ’’شاعر‘‘ بنایا ہے۔ غزل کی روایت اتنی بڑی، گہری اور موثر ہے کہ غزل کی روایت میں تیسرے چوتھے اور پانچویں درجے کا شاعر بھی دس بیس سال میں پانچ سات اچھے شعر کہہ ہی لیتا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں۔ غزل کی روایت نے جتنے شاعر پیدا کیے ہیں اس سے کئی سو گنا سامعین پیدا کیے ہیں۔ چناں چہ اردو غزل کی روایت نے ’’مشاعرے‘‘ کا جو تجربہ خلق کیا ہے اس کی مثال شاید ہی دنیا کی کسی زبان کی شعری روایت میں ملتا ہو۔ ایک زمانہ تھا کہ مشاعروں میں ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ لوگ موجود ہوتے تھے۔ اس تجربے نے شاعری کو جس طرح عوام کی چیز بنایا اس نے عوام اور خواص کی تمیز کو ختم کردیا اور شاعری کے ذریعے کروڑوں لوگوں کے جذبات و احساسات اور خیالات کی تہذیب کا اہتمام ہوا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کام اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے بغیر ہوا۔ کیا دنیا کی کوئی اور زبان اس سلسلے میں اردو کی ہم پلہ ہوسکتی ہے؟
میر تقی میر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی شاعری میں زندگی کی بلند ترین سطح بھی ملتی ہے اور پست ترین سطح بھی۔ بلاشبہ یہ میر کی بھی عظمت ہے لیکن میر کی یہ صلاحیت اردو کے وسیلے ہی سے معرض اظہار میں آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو ایک جانب تصفیہ کی زبان ہے۔ حدیث مبارکہ اور سیرت طیبہ کو بیان کرنے والی زبان ہے اور دوسری جانب اس نے برصغیر میں لاکھوں فلمی گیتوں کا خزانہ پیدا کیا ہے۔ کیا دنیا میں اردو کے سوا کوئی ایسی زبان ہے جس کے دائرے میں پچاس سال پہلے لکھے سیکڑوں گیت آج بھی لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ سنتے ہوں؟
اردو کے آغاز کے بارے میں کئی نظریات ملتے ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اردو دلّی اور یوپی میں پیدا ہوئی۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اردو نے حیدر آباد دکن میں جنم لیا۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اردو نے پنجاب میں آنکھ کھولی۔ ان نظریات میں زیادہ قرین قیاس بات یہ ہے کہ اردو کی پیدائش دلّی اور یوپی کے علاقوں میں ہوئی لیکن اہم بات اردو کی پیدائش کا مقام نہیں، اہم بات یہ ہے کہ اردو اپنے مقام پیدائش، کسی خاص جغرافیے یا کسی خاص طبقے کی اسیر نہ ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پورے برصغیر میں پھیل کر رابطے کی زبان بن گئی۔ اگر یہ کام اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے زمانے میں ہوا ہوتا تو لوگ کہتے کہ ان ذرائع نے اردو کو پورے خطے کی زبان بنایا لیکن اردو ان تمام ذرائع کے عام ہونے سے پہلے ہی پورے برصغیر کی زبان بن چکی تھی۔ ان ذرائع نے اس کی رسائی اور فروغ میں صرف اضافہ کیا۔ اردو کے حسن و جمال اور اس کی کشش کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اردو صرف رابطے ہی کی زبان نہیں بلکہ اردو نے ایک سے زیادہ مقامات پر اپنے تخلیقی مراکز بھی پیدا کرکے دکھائے۔ اگر اردو دلّی اور یوپی کی زبان تھی تو اس نے پنجاب اور سندھ میں بھی اپنے تخلیقی مراکز پیدا کیے اور اگر اردو نے پنجاب میں جنم لیا تو اس نے دلّی، یوپی اور حیدر آباد دکن میں اپنے مراکز تخلیق کرکے دکھائے۔ اہم بات یہ ہے کہ اردو کے اس پھیلاؤ کی پشت پر کوئی سیاسی، عسکری، اقتصادی یا مالی قوت موجود نہیں۔ بلاشبہ اردو برصغیر بالخصوص پاکستان کے اکثر لوگوں کی مادری زبان نہیں لیکن یہ پورے برصغیر بالخصوص پاکستان کے ’’مجموعی ماحول‘‘ کی زبان ضرور ہے اور ماحول کی قوت زبان کو مادری زبان کی ہم پلہ بنادیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں ہر درجے میں ذریعہ تعلیم بننے کی پوری پوری اہلیت رکھتی ہے۔ بلاشبہ اردو سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان نہیں لیکن اس میں اردو کا ایک زبان کی حیثیت سے کوئی قصور ہی نہیں۔ برصغیر کے لوگوں نے گزشتہ دو سو سال میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے دائروں میں کوئی قابل ذکر کام کیا ہی نہیں۔ کیا ہوا تو اردو نے اس کام کو یقیناًاظہار کا سانچہ بھی فراہم کیا ہوتا۔