بھارت میں شادی کے اخراجات محدود کرنے کا بل

216

بھارت میں جہاں متوسط طبقے کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے وہاں اب شادی بیا ہ کی تقربیات میں نمودونمائش اور اصراف کے مظاہرے ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ یہ تقربیات عموما مہنگے ہوٹلوں میں منعقد کی جاتی ہیں جن میں بڑی تعداد میں مہمانوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق حال ہی میں ریاست بہار سے تعلق رکھنے والی ایک رکن پارلیمنٹ رنجیت رنجن نے ایک شادی بیاہ سے متعلق ایک نیا بل پیش کیا ہے جسے اخراجات پر لازمی پابندی کا بل 2016 کا نام دیا گیا ہے۔بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ شادی پر ساڑھے سات ہزار ڈالر سے زیادہ خرچ کرنے والے شخص کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ حکومت کو 10 فی صد ٹیکس ادا کرے۔ ٹیکس سے حاصل ہونے والے رقم غریب لڑکیوں کی شادی کے لیے استعمال کی جائے گی۔

بل میں مہمانوں اور شادی کی دعوت میں پیش کیے جانے والے کھانوں کی تعداد مقرر کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔رنجن نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ بل پیش کرنے کا مقصد اس شدید معاشرتی دبا میں کمی لانا ہے جس کا سامنا بالخصوص متوسط طبقے کو کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شادی بیاہ میں شان وشوکت اور دولت کی نمائش معاشرتی معیار بن گیا ہے اور لوگ اپنے بچوں، خاص طور پر بیٹی کی شادی کے لیے اپنی زمین، گھر اور جائیداد تک بیچ ڈالتے ہیں اور بھاری قرضے لیتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق بہت سے بھارتی والدین اپنے بچوں کی شادی پر 50 ہزار سے ایک لاکھ ڈالر تک خرچ کرتے ہیں۔بھارت میں ہر سال تقریبا ایک کروڑ شادیاں ہوتی ہیں جن پر ایک محتاط تخمینے کے مطابق 5 ارب ڈالر اٹھتے ہیں۔

اعدادوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں شادی بیاہ کے اخراجات میں سالانہ 30 فی صد اضافہ ہو رہاہے۔رکن پارلیمنٹ رنجیت رنجن کا کہنا ہے کہ لوگ اس صورت حال سے تنگ آ چکے ہیں اور شادی بیاہ کے اخراجات میں کمی کا وہ خیرمقدم کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ لوگوں کی جانب سے انہیں خوشگوار رد عمل مل رہا ہے اور وہ قانونی تحفظ حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

حزب اختلاف کی جماعت کانگریس سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے بل پر بھرپور حمایت حاصل ہے اور وہ مارچ سے شروع ہونے والے اسمبلی کے سیشن میں زیر بحث آسکتا ہے۔حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ابھی اس بل پر کوئی موقف اختیار نہیں کیا۔