پاناماکیس ، سپریم کورٹ ایف بی آر کی کارکردگی پر برہم

124

سپریم کورٹ میں پاناما کیس سے متعلق آئینی درخواستوں کی سماعت ہوئی ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کیس کی سماعت کی ۔ لارجز بنچ نے چیئرمین نیب اور چیئرمین ایف بی آر اور ان کے وکلاء سے جراح کی ۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پاناما کیس سے متعلق آئینی درخواستوں کی سماعت ہوئی ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔

کیس کی 31 ویں  سماعت کے اختتام سے اب تک پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان نے مزید ایک ہزار سے زائد دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہیں ۔

مزید دستاویزات کے تناظر میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کےبچوں کے وکیلوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ نئی جمع کرائی گئی دستاویزات کو کیس کا حصہ نہ بنایا جائے کیوں کہ یہ تمام دستاویزات دونوں اطراف کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جمع کرائی گئی ہیں ۔ وکلاء کا ہے کہ اگر ان دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانا ہے تو جواب داخل کرانے کے لئے مزید 8 ہفتوں کو وقت دیا جائے ۔

واضح رہے کہ شیخ رشید کے اعتراضات پر وزیراعظم کے وکلاء نے گذشتہ سماعت پر وزیراعظم کی طرف سے جواب داخل کروا دیا تھا ۔

پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے چیئرمین ایف بی آر کو روسٹرروم میں طلب کیا ۔

لارجز بنچ اور چیئرمین ایف بی آر کے درمیان مکالمے کی تفصیل:ـ

آف شور کمپنیوں سے متعلق ایف بی آر کیا کررہی ہے؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ

پاناما کے ساتھ ٹیکس معلومات کوئی معاہدہ نہیں ہے ۔ پاناما کا معاملہ سامنے آنے پر فوری طور پر وزارت خارجہ سے رابطہ کیا ۔ وزارت خارجہ کے ذریعے پاناما کے رابطےکی کوشش کی ۔ تاہم کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ چیئرمین ایف بی آر

ایف بی آر نے پاناما کے معاملے پر وزارت خارجہ سے کب رابطہ کیا ؟ جسٹس کھوسہ کا سوال

چھ ماہ بعد ۔ چیئرمین ایف بی آر کا جواب

وزارت خارجہ اور ایف بی آر کی عمارتوں کےدرمیان 200 گز کا فاصلہ ہے اور آپ نے رابطہ کرنے میں چھ ماہ لگا دیئے ، چیئرمین ایف بی آر آپ کو مبارک ہو ؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا طنز

پاناما ٹیکس بچانے والوں کے لئے جنت ہے ، ایف بی آر کا کردار ٹیکس ریٹرن فائل جمع کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے ۔ ایف بی آر

ایف بی آر کیا کر رہی ہے سب کو پتا ہے ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ

آف شور کمپنوں سے متعلق ایف بی آر کا کردار جاننا چاہتے ہیں ۔ جسٹس سعید کھوسہ

آف شور کمپنی بنانا کوئی غلط کام نہیں ہے یہ تو طے ہے ۔ جسٹس کھوسہ

صرف ڈائریکٹر اور کمپنیوں کے ناموں کا پتا ہونا کافی نہیں ۔ 39 کمپنیوں کے مالکان پاکستان میں رہائش پذیر نہیں ہیں ۔

جو ملک میں رہائش پذیر نہیں کیا ان سے پوچھ گچھ نہیں ہو سکی ؟جسٹس سعید کھوسہ

کیا مریم نواز نے ٹرسٹی ہونے کا کہاہے ؟ جسٹس گلزار

مریم نواز نے کہا کہ وہ کسی آف شور کمپنی مالکہ ہیں نہ ہی ٹرسٹی ۔ چیئرمین ایف بی آر

حسین نواز اور حسن نواز نے کہا کہ وہ ملک سے باہر مقیم ہیں ۔ چیئرمین ایف بی آر

حسین نواز 2000 سے ملک سے باہر رہائش پذیر ہیں ۔ ایف بی آر

آف شور کمپنیوں کے مالکوں سے رابطہ کیسے ہوا اور کیا عمل درآمد کیا گیا ؟ جسٹس عظمت سعید

444 کمپنیوں میں 343 کمپنیوں کے مالکان کو نوٹسز جاری کئے ۔

حسین نواز کے بیان کے بعد آپ نے ان کی فائل بند کردی ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ

2002 کے بعد کیا حسین نواز کا این ٹی آر نمبر منسوخ ہوگیا تھا ؟ کیا انہوں نے نیا این ٹی آر نمبر لیا تھا ؟ جسٹس اعجاز الحس کا سوال

منی لانڈرنگ کے لئے بینکوں استعمال ہوا ۔ جسٹس گلزار

اس معاملے میں ایف بی آر نے کیا ؟ جسٹس کھوسہ

منی لانڈرنگ کے لئے الگ الگ ادارے اور قانون ہیں ۔ ایف بی آر کا جواب

اس کا مطلب ہے کہ منی لانڈرنگ پر ایف بی آر نے کچھ نہیں کیا۔ جسٹس عظمت

آپ آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے تھے۔ جسٹس عظمت

کیا ایف بی آر کو اپنی تحقیقات بڑھانے کے لئے عدالتی مداخلت کی ضرورت ہے ۔ جسٹس کھوسہ کا سوال

اس سارے معاملے میں ایف بی آر نے عدالت کی کوئی معاونت نہیں کی ۔ جسٹس کھوسہ

تسلیم کرتے ہیں پاناما کے معاملے پر فوری اقدامات نہیں کئے گئے ۔ ایف بی آر

کس ادارے کو کب خط لکھا گیا گیا ساری ہسٹری بتائی جائے ؟ جسٹس کھوسہ

اس وقت ریکارڈ موجود نہیں تاہم عدالتی حکم پر تمام ریکارڈ پیش کیا جاسکتا ہے ۔ ایف بی آر

ضرورت پڑی تو آپ کو دوبارہ ضرور بلائیں گے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ