قومی ادارۂ صحت برائے اطفال میں ’’بے بی شفٹنگ‘‘ کا مذموم کاروبار رک نہ سکا،

144

کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) قومی ادارۂ صحت برائے اطفال میں ’’بے بی شفٹنگ‘‘ کا مذموم کاروبار رک نہ سکا، مخصوص ڈاکٹرز، پیرا میڈیک اور نرسنگ اسٹاف ’’کمیشن‘‘ لے کر یومیہ 25 سے زائد بچے غیر رجسٹرڈ نرسریز میں منتقل کر دیتے ہیں، بے بی شفٹنگ مافیا کے سامنے محکمہ صحت، ڈائریکٹر قومی ادارہ صحت برائے اطفال اور ڈپٹی ڈائریکٹر بے بس ہو گئے۔

ذرائع کے مطابق قومی ادارہ صحت برائے اطفال میں تقریباً6 مختلف شعبے کام کر رہے ہیں جن میں شعبۂ ادویات کے تحت وارڈ نمبر 18-1، 18-2، اور 18-3، سرجیکل ڈپارٹمنٹ کے تحت وارڈ نمبر 19-A اور 19-B، گردے کے امراض کے لیے نیفرو لوجی، انتہائی نگہداشت کے لیے میڈیکل آئی سی یو، سرجیکل آئی سی یو اور ایک ماہ سے کم عمر کے بچوں کے لیے نرسری شامل ہیں۔ این آئی سی ایچ کے ذرائع کے مطابق ہر وارڈ میں تقریباً 100 بچوں کی گنجائش ہے لیکن یہاں 200 سے 250 بچے داخل ہوتے ہیں یعنی ایک بستر پر2 سے 3 بچے زیر علاج ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہاں آکسیجن سلنڈر کی کمی کے باعث ایک ایک سلنڈر سے ’’ٹی‘‘ بنا کر کئی کئی بچوں کو آکسیجن فراہم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے آکسیجن ضائع بھی ہو جاتی ہے۔

اس کے علاوہ یہاں نرسری آئی سی یو (NICU) میں تقریباً 40 انکیوبیٹر اور 6 وینٹی لیٹر ہیں ۔وینٹی لیٹر کی کمی کے باعث غریب والدین شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ این آئی سی ایچ کے ذرائع کے مطابق یہاں وینٹی لیٹرز کی عدم دست یابی سب سے بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ کراچی ہی نہیں سندھ اور بلوچستان کا بچوں کا سب سے بڑا اسپتال ہونے کی وجہ سے شہر اور دونوں صوبوں کے دور دراز علاقوں نومولود بچوں کو وینٹی لیٹر میں رکھنے کے لیے یہاں آنے والے والدین کا واسطہ ایک ایسے مافیا سے پڑتا ہے جس کے تعلقات غیر رجسٹرڈ نرسریز سے ہوتے ہیں اور وہ ان غریب لوگوں کو ڈراتے ہیں کہ یہاں سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، ادویات بھی موجود نہیں ہیں، ڈاکٹرز دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے صحیح طریقے سے دیکھ بھال بھی ممکن نہیں ہے اور صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے ماحول خراب ہے، ایسے میں بچے کی جان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں لہٰذا بچے کو فوری طور پر کسی نجی ہسپتال کی نرسری میں منتقل کیا جائے۔

ان تمام عوامل کے باعث یہ غریب والدین ڈر جاتے ہیں لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ فوری طور پر بچے کو کہاں منتقل کریں تو ایسے میں اس مافیا کے کارندے آگے بڑھتے ہیں اور انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ بچے کو فلاں نرسری میں منتقل کر دیں وہاں یومیہ فیس تو بہت ہے لیکن ہم آپ کو کمی کرا دیں گے۔ والدین فوری طور پر راضی ہو جاتے ہیں تو یہ اپنی مخصوص ایمبولینسوں کے ذریعے ان بچوں کو مخصوص اسپتالوں کی نرسری تک پہنچانے کا ’’انتظام‘‘ کر دیتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان نرسریوں سے ایک دن کی جو بھی فیس طے ہوتی ہے، (جو عام طور 6 سے 7 ہزار روپے ہوتی ہے) اسی ایمبولینس ڈرائیور کے ہاتھ بھجوا دی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق یومیہ 20 سے 25 بچے این آئی سی ایچ کی ایمرجنسی سے ’’منتقل‘‘ کیے جاتے ہیں اور ’’بے بی شفٹنگ‘‘ کے اس گھناؤنے کاروبار میں مخصوص ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اور نرسنگ اسٹاف ملوث ہیں جو مضبوط سیاسی اثر و رسوخ کے حامل ہیں جس کے باعث ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ اس مذموم کاروبار کی وجہ سے غریب والدین شدید مالی پریشانیوں اور قرضوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ اس معاملے کو سندھ حکومت کے محکمۂ صحت ڈائریکٹر این آئی سی ایچ جمال رضا اور ڈپٹی ڈائریکٹر ارشد حسین ڈومکی کے علم میں بھی کئی مرتبہ تحریری طور پر لایا جا چکا ہے مگر ان کی جانب سے بھی تا حال کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔