اسرائیل کا فلسطینی بستیوں کو مسمار کرنے کا سلسلہ برقرار

221

مقبوضہ بیت المقدس میں قابض اسرائیلی حکام کی جانب سے فلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کرنے کا سلسلہ برقرار ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ کے حکومت سنبھالتے ہی اسرائیل کی کارروائی میں تیزی آ گئی۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے شہر کے ایک علاقے بیت حنینا میں لوئی ابو رموز نامی فلسطینی کا گھر گرا دیا۔ اس طرح رواں سال کے آغاز سے اب تک بیت المقدس میں منہدم کیے جانے والے گھروں کی مجموعی تعداد 42 ہو گئی ہے۔ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے انہدام کی کارروائیوں میں غیر مسبوق تیزی دیکھی جا رہی ہے۔

لوئی کے چچا محمد ابو موز نے عرب میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بھتیجے نے اس گھر کو بنانے کے لیے اپنے پاس موجود سارا سونا فروخت کر دیا تھا۔ وہ اپنے بچوں کے لیے روزی کمانے کے واسطے صبح صادق کے وقت گھر سے نکل جاتا ہے۔

ادھر خود لوئی نے بتایا کہ اس کا یہ گھر 15 سال سے قائم تھا اور وہ اب تک اس پر جرمانے کی مد میں 20 ہزار ڈالر سے بھی زیادہ کے چالان کی ادائیگی کر چکا ہے۔ قابض فوج نے صبح سویرے گھر میں گھس کر تمام اہل خانہ کو باہر نکال دیا اور کسی کو کوئی چیز بھی ساتھ لینے کی اجازت نہیں دی۔

دوسری جانب ایک اسرائیلی ادارے “عیر عمیم” نے اپنی رپورٹ میں باور کرایا کہ نئی امریکی انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے انہدام کی کارروائیوں میں غیر مسبوق نوعیت کی تیزی آ گئی ہے۔ تاہم یہ واحد سبب نہیں ہے پہلی وجہ اسرائیل میں موجودہ دائیں بازو کی حکومت ہے جو فلسطینیوں کو 2015 میں ہونے والی کارروائیوں پر سبق سکھانا چاہتی ہے۔

 امریکی انتظامیہ نے اس پالیسی پر عمل درامد کو قوت بخشی ہے۔اس سلسلے میں مذکورہ ادارے کے محقق افیف تتارسکی کا کہنا ہے کہ حالیہ پالیسیوں نے بیت المقدس کے فلسطینیوں کے سامنے دو ہی اختیارات چھوڑے ہیں یا تو وہ ہجرت کر جائیں اور یا پھر بنا اجازت گھر بنا کر اس پر جرمانوں کی ادائیگی کرتے رہیں جب کہ گھر کے گرائے جانے کا امکان تلوار بن کر سروں پر لٹکتا رہے گا ۔