بھارت اور پاکستان کا حکمران طبقہ

239

جس ملک کی سرحدیں بھارت سے ملتی ہوں اسے دو شیطانوں کے مقابلے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایک حقیقی شیطان اور دوسرا بھارت۔ بعض لوگ اس طرح کی باتوں کو طنز سمجھتے ہیں لیکن یہ طنز نہیں ایک حقیقت ہے۔ ایک تلخ اور ناقابل تردید حقیقت۔ بھارت نے پاکستان کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کے رہنما بھارت کے اس کردار پر فخر کرتے ہیں اور وہ باقی ماندہ پاکستان کے حصے کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ نیپال ایک ہندو ریاست ہے لیکن بھارت نیپال کا جینا حرام کیے ہوئے ہے۔ وہ آئے دن نیپال کو تیل اور دوسری ضروری اشیا کی فراہمی معطل کرتا رہتا ہے۔ اس کا اصرار کہ نیپال کے لوگ آئین بنائیں تو بھارت کی مرضی سے۔ چین کے ساتھ تعلقات قائم کریں تو بھارت سے پوچھ کر۔ نتیجہ یہ کہ نیپال کے لوگ بھارت سے عاجز آئے ہوئے ہیں۔ بنگلا دیش کو بھارت نے بنگلا دیش بنایا مگر بنگلا دیش کے لوگ صرف تین سال میں بھارت کی بالادستی سے گھبرا گئے اس کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ بنگلا دیش کی آزادی کے صرف تین سال بعد جنرل ضیا الرحمن کی قیادت میں بنگلا دیش کی فوج نے بابائے بنگلا دیش شیخ مجیب الرحمن کے خلاف بغاوت کرکے ان کو قتل کردیا۔ جس وقت شیخ مجیب کو قتل کیا گیا ان پر دو الزامات تھے۔ ایک یہ کہ انہوں نے بدعنوانی کی انتہا کردی ہے اور دوسرا یہ کہ انہوں نے بنگلا دیش کو بھارت کی کالونی بنادیا ہے۔ بھارت سری لنکا کے اندرونی معاملات میں برسوں سے مداخلت کررہا ہے یہاں تک کہ اس نے سری لنکا کی خانہ جنگی میں بھی ایک فریق کا کھل کر ساتھ دیا۔ اس کے ردعمل میں ایک تامل عورت نے بھارت کے سابق وزیراعظم کو خودکش حملے میں ہلاک کردیا۔ سارک ممالک میں مالدیپ سب سے چھوٹا ہے اور اس کی کوئی سیاسی اہمیت ہے نہ ہی اس کی کوئی عسکری جہت ہے۔ اس کے باوجود بھارت مالدیپ میں فوجی مداخلت کرچکا ہے۔ بھوٹان بھی بھارت کا پڑوسی ہے لیکن بھارت بھوٹان کو بھی اپنا باج گزار بنانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ چناں چہ بھوٹان بھارت سے زیادہ پاکستان کے قریب ہے، اس بات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھوٹان بھارت سے جنگی طیارے خریدنے کے بجائے پاکستان سے جے ایف 17 خریدنے کے لیے مذاکرات کررہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ بھارت میں چینی بھارتی بھائی بھائی کے نعرے گونجا کرتے تھے لیکن بھارت نے 1962ء میں چین کے ساتھ بھی ایک عدد جنگ لڑ ڈالی۔ چوں کہ اس جنگ میں بھارت کو بدترین شکست ہوئی اس لیے چین کے خلاف بھارت کو دوبارہ جارحیت کے ارتکاب کی جرأت نہ ہوئی، تاہم اس وقت بھی بھارت امریکا کے ساتھ مل کر چین کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہے۔ حالاں کہ چین اور بھارت کا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ چین آج اقتصادی طور پر جہاں کھڑا ہے وہاں تک پہنچنے کے لیے بھارت کو تیس چالیس سال درکار ہیں۔ بھارت امریکا کی امداد و اعانت اور پشت پناہی کے باعث افغانستان میں آیا ہے تو افغانستان کے ساتھ بھی وہ دوستی نہیں کررہا بلکہ وہ افغانستان کو بھی اپنی کالونی بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی طرح ایک عام ’’نارمل ملک‘‘ نہیں بلکہ بھارت کی فطرت میں شیطنت ہے اور یہ شیطنت ہزاروں سال سے بھارت کی فطرت کا حصہ ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر بھارت کے وہ پچاس کروڑ شودر اور دلت ہیں جو چار پانچ ہزار سال سے کتوں سے بدتر زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس زندگی کو دیکھ کر بھارت میں شودروں کے سب سے بڑے رہنما اور بھارتی آئین ڈرافٹ کرنے والے ڈاکٹر امبیٹ کرنے کہا تھا کہ چوں کہ پیدائش پر میرا بس نہیں تھا اس لیے میں ہندو پیدا ہوگیا۔ لیکن مرنے پر میرا اختیار ہے چناں چہ میں ہندو کی حیثیت سے نہیں مروں گا اور انہوں نے اپنا کہا پورا کر دکھایا۔ ڈاکٹر امبیٹ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے تو وہ ہندو نہیں تھے۔ بدھ تھے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے حکمرانوں کو پہلے دن سے بھارت کو دیکھتے ہوئے کام کرنا چاہیے تھا۔ لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے بھارت کی حقیقت کو نظر انداز کرکے حکمرانی کی۔ بھارت کے اعتبار سے پاکستان کی اصل ضرورت یہ تھی کہ پاکستان کو داخلی طور پر مضبوط سے مضبوط بنایا جائے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اس اسلام کے ذریعے ہی پاکستان کو توانا بنایا جاسکتا تھا۔ لیکن جنرل ضیا الحق کے سوا کسی کو اسلام یاد نہ آیا۔ جنرل ضیا الحق کو اسلام یاد آیا تو اس کی وجہ بھی ان کا اقتدار تھا۔ پاکستان کو قوی بنانے کے لیے ہمیں ایک مستحکم سیاسی نظام کی ضرورت تھی لیکن پاکستان کے حکمراں طبقے نے ملک کے سیاسی نظام کو ایک کھیل بنادیا۔ اس کھیل میں کبھی جرنیل غالب آجاتے ہیں اور کبھی سیاسی رہنماؤں کو ملک لوٹنے اور اسے تباہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ انصاف کے بغیر معاشرے کو حقیقی معنوں میں سکون اور مسرت سے ہمکنار نہیں کیا جاسکتا اور ہمارے حکمران پاکستان کو انصاف کا معیاری کیا غیر معیاری نظام بھی مہیا نہ کرسکے۔ تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کا نظام انصاف بھی اس استحصالی سیاسی نظام کا حصہ ہے جو کروڑوں لوگوں کو حقیقی زندگی اور عزت سے محروم کیے ہوئے ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ میں 1962ء بڑی اہمیت کا سال تھا۔ اس سال بھارت نے چین سے پنجہ آزمائی کی ’’ہولناک غلطی‘‘ کی۔ اس غلطی کی وجہ سے بھارت اپنی بیش تر فوج کو چین کی سرحد پر تعینات کرنے کے لیے مجبور ہوگیا۔ اس مرحلے پر چین نے جنرل ایوب کو پیغام دیا کہ یہ ایک نادر موقع ہے، آگے بڑھیے اور غاصب بھارت سے اپنا کشمیر لے لیجیے۔ یہ ایک ایسا موقع تھا کہ جو قوموں کو صدیوں میں حاصل ہوتا ہے۔ لیکن امریکا کو چین کے مذکورہ بالا پیغام کی اطلاع ہوگئی اور اس نے جنرل ایوب کو چین کے مشورے پر عمل سے روک دیا۔ امریکا نے جنرل ایوب کو یقین دلایا کہ چین بھارت جنگ کے خاتمے کے بعد وہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر مجبور کرے گا۔ لیکن یہ محض ایک دھوکا تھا اور پاکستان کا حکمران طبقہ امریکا کے جوتے چاٹنے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتا رہا ہے۔ چناں چہ جنرل ایوب اس تاریخی موقع سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔
جنرل پرویز مشرف نے کارگل تخلیق کیا اور کارگل میں بھارت کی دو ڈویژن فوج کا محاصرہ کرلیا لیکن یہ محض ایک ’’حربہ‘‘ تھا حقیقی اقدام نہ تھا چناں چہ کارگل بے نتیجہ رہا۔ لیکن اصل کہانی کارگل کے بعد شروع ہوئی، کارگل کے بعد بھارت نے مذاکرات کے دروازے بند کردیے اور جنرل پرویز مشرف بھارت سے مذاکرات کی ’’بھیک‘‘ مانگنے پر اُتر آئے۔ یہاں تک کہ آگرہ مذاکرات کا موقع آگیا، لیکن جنرل پرویز آگرہ میں جو کچھ کررہے تھے اس کا پاکستان کے اصولی اور تاریخی موقف سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی و الحاق پاکستان کی سب سے بڑی علامت سید علی گیلانی کشمیر کے اس out of the box حل سے متفق نہ تھے جو جنرل پرویز نے ایجاد کیا تھا۔ اس لمحے میں سید علی گیلانی پاکستان اور اس کی تاریخ کی حقیقی علامت تھے اور ان کی پاکستانیت کے مقابلے پر جنرل پرویز کی پاکستانیت کچھ بھی نہ تھی۔
بدقسمتی سے میاں نواز شریف پاکستان کے حکمرانوں میں بھارت جیسی شیطان طاقت کے سب سے بڑے اتحادی بن کر اُبھرے ہیں۔ وہ غلاموں کی طرح مودی کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے۔ مودی نے صاف کہا کہ بھارت نے بنگلا دیش بنایا لیکن میاں نواز شریف اس سلسلے میں ایک مذمتی بیان تک جاری نہ کرسکے۔
بقیہ صفحہ9نمبر1
بھارت اور پاکستان کا حکمران طبقہ
پاکستان نے کلبھوشن یادو کی صورت میں بھارت کا ایک بڑا جاسوس پکڑا لیکن میاں نواز شریف آج تک کلبھوشن کا نام بھی اپنی زبان پر نہیں لائے۔ بھارت آئے دن سرحد پر ہمارے شہریوں اور فوجیوں کو شہید کررہا ہے لیکن میاں نواز شریف اس عمل کی مذمت اور روک تھام کرنے کے بجائے پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت دے رہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھارتی فلموں کی نمائش انہیں ہمارے شہیدوں کے خون سے زیادہ عزیز ہے، پاکستان میں دہشت گردی کی جتنی وارداتیں ہورہی ہیں ان کی پشت پر بھارت موجود ہے۔ لاہور کا خودکش حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے لیکن اس کے باوجود میاں صاحب نے فرمایا ہے کہ ہم دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو نہیں چھوڑیں گے۔ بلاشبہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی گردن دبوچنی بھی ضروری ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری دہشت گردوں کے سرپرست بھارت کی مذمت ہے لیکن جس طرح کسی زمانے میں ہماری خواتین اپنے خاوند کا نام لینے سے شرماتی تھیں اسی طرح میاں نواز شریف دہشت گردی کے سلسلے میں بھارت کا نام لینے سے شرما رہے ہیں۔ بھارت کی شیطنت ایسی چیز ہے کہ اس کے خلاف خود بھارت میں آواز اُٹھ رہی ہے۔ کبھی ارون دھتی رائے بھارت کے ظلم پر چیخ پڑتی ہیں کبھی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ہندو طلبہ بھارت کے مظالم پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں مگر میاں نواز شریف بھارت کی شیطنت پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ میاں نواز شریف کی اعلیٰ ظریفی نہیں شیطان پرستی ہے۔ میاں نواز شریف کے ظرف کا یہ حال ہے کہ ان کے وزراء کی ایک فوج پاناما لیکس کے حوالے سے روز عمران خان کی کردار کشی کررہی ہے، تو کیا عمران خان کا جرم بھارت کے جرائم سے بھی بڑھ کر ہے؟ آخر میاں صاحب کے وزراء بھارت کے خلاف کیوں اپنی توپیں استعمال نہیں کرتے؟ لاہور اور سہون کے حملوں نے پوری قوم کو ہلادیاہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ میاں نواز شریف کی زبان کو ایسا لقوہ ہوگیا ہے جو انہیں ان حملوں کے ذمے داروں بھارت اور امریکا کا نام نہیں لینے دیتا۔ پاک فوج نے اگرچہ افغانستان میں خودکش حملوں کے ذمے داروں پر فضائی حملے کیے ہیں لیکن جنرل باجوہ کی زبان پر بھی ابھی تک امریکا اور بھارت کا نام نہیں آیا۔ کیا جنرل باجوہ کو بھارت اور امریکا کا نام لینے کے لیے کسی زیادہ بڑے سانحے کا انتظار ہے۔