ٹرمپ انتظامیہ یا فوجی ٹولہ؟

136

صدر ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ میں اتنے زیادہ ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسرشامل کیے ہیں کہ دوسری عالم گیر جنگ کے بعد کسی صدر کی کابینہ میں اتنے فوجی افسر شامل نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی کابینہ کو ’’فوجی ٹولہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ٹرمپ کا منفرد خود تردیدی نفسیاتی رویہ ہے، انتخابی مہم کے دوران فوج اور فوجی جرنیل ان کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ یہاں تک انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان جرنیلوں کو داعش کے بارے میں کچھ علم نہیں ان سے زیادہ تو وہ اس تنظیم کے بارے میں جانتے ہیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جرنیلوں کے ساتھ رومانس میں مبتلا ہو گئے ہیں اور اپنی انتظامیہ میں جرنیلوں کو شامل کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ حلف اُٹھانے سے پہلے ہی ٹرمپ نے اپنی کابینہ کے تین اہم عہدوں پر جرنیلوں کو نامزد کردیا تھا۔ ان میں وزیر دفاع کے عہدے کے لیے Mad Dog جنرل جیمس میٹیس کومنتخب کیا۔ انہیں خلیج کی پہلی جنگ، افغانستان اور عراق کی جنگ میں حصہ لینے کے بعد فوج سے ریٹائر ہوئے صرف تین سال ہوئے ہیں، جب کہ قانون کے مطابق وزیر دفاع کے عہدہ پر کسی جرنیل کو اس وقت تک مقرر نہیں کیا جا سکتا جب تک وہ ریٹائرمنٹ کے سات سال پورے نہ کر لے۔ اس کے باوجود سینیٹ نے انہیں استثنا دے کر ان کے تقرر کی توثیق کر دی ہے۔ ہوم لینڈ سیکورٹی کے عہدے پر ریٹائرڈ جنرل کیلی کو فائز کیا گیا ہے اور قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے کٹر اسلام دشمن جرنیل مائیکل ملن کو مقرر کیا گیا تھا لیکن یہ اپنے عہدے پر صرف 25روز رہے، اور روس کے سفیر سے رابطہ کے بارے میں غلط بیانی او ر صدر کا اعتماد کھو دینے پر انہیں خفت آمیز برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ سال 18 نومبر کو جب ٹرمپ نے جنرل فلن کو قومی سلامتی کا مشیر نامزد کیا تھا تو اس وقت بہت سے لوگوں نے سخت حیرت کا اظہار کیا تھا کیوں کہ 2012 میں اوباما نے انہیں دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کے عہدے سے اسلام سے کٹر دشمنی اور ایران کے بارے میں ان کی پالیسی کی حدود سے تجاوز کرنے پربرطرف کردیا تھا۔ جنرل فلن اسلام کو سرطان قرار دیتے ہیں اور اسلام کو مذہب کی جگہ ایک سیاسی نظریہ سمجھتے ہیں۔
جنرل فلن کی برطرفی کے بعد اب جنرل میک ماسٹر کو قومی سلامتی کا وزیر مقرر کیا گیا ہے۔ جنرل میک ماسٹر حاضر سروس جنرل ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایک حاضر سروس جنر ل کو قومی سلامتی کا وزیر مقرر کیا گیا ہے۔ جنرل میک ماسٹر نے امریکی تاریخ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ جنرل میک ماسٹر کے نائب جنرل کیتھ کیلاگ ہوں گے۔
ان پانچ جرنیلوں کے علاوہ ٹرمپ کی کابینہ میں ایسے وزیروں کی بڑی تعداد ہے جن کا فوج سے تعلق رہا ہے۔ مثلاً سی آئی اے کے نئے سربرہ پومپیو، تجارت کے میدان میں آنے سے پہلے فوج میں کپتان تھے۔ محکمہ داخلہ کے سربراہ زینیٹ ایوان نمائندگان میں منتخب ہونے سے پہلے دس سال تک نیوی سیلز میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
ٹرمپ کی انتظامیہ میں فوجیوں کی بھر مار پر بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ آخر جرنیلوں پر فریفتہ کیوں ہیں؟ ٹرمپ کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اپنے اسکول کے زمانے میں فوجی اکادمی میں تو کچھ عرصہ رہے ہیں لیکن انہیں فوج کی وردی زیب تن کرکے فوج میں خدمات انجام دینے اور کسی جنگ میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا ہے بلکہ ویت نام کی جنگ سے بھی انہوں نے راہ فرار اختیار کی۔ اب وہ صدر بننے کے بعد کمانڈر انچیف بنے ہیں اس لیے ان کی خواہش ہے کہ کمانڈر انچیف کے اردگرد جرنیل رہیں۔ ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ واشنگٹن کے سیاست دانوں کی کرپشن کا قلع قمع کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور چوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ فوج کے جرنیل، ضابطہ اخلاق کے پابند، ڈسپلن کے حامل اور قابل اعتماد ہوتے ہیں لہٰذا یہ کرپشن کے خاتمے میں بے حد ممد ثابت ہوں گے۔ لیکن جنرل فلن کے سلسلے میں ٹرمپ کو جو تلخ تجربہ ہوا ہے اس کی وجہ سے بلاشبہ جرنیلوں پر ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔
امریکی صدر کی کابینہ میں فوجیوں کی شمولیت کا سلسلہ سب سے پہلے دوسری عالم گیر جنگ کے بعد، ہیری ٹرومین کے زمانے سے شروع ہوا تھا۔ انہوں نے دوسری جنگ میں شہرت حاصل کرنے والے جنرل جارج سی مارشل کو وزیر خارجہ مقرر کیا تھا اور مختصر عرصے کے لیے وزیر دفاع بھی۔ جنرل مارشل کی منفرد حیثیت تھی کیوں کہ انہوں نے جنگ جیتی تھی لیکن ٹرمپ کی کابینہ کے جرنیلوں نے افغانستان اور عراق میں تو جنگیں لڑیں ہیں لیکن کسی کو کوئی جنگ جیتنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا ہے۔
امریکا میں خانہ جنگی کے دوران اور اس کے بعد، بیش تر جرنیلوں نے صدارتی انتخابات لڑے ہیں اور بر سر اقتدار رہے ہیں۔ یہ امریکا کی پرانی روایت رہی ہے، جو 1952ء تک جاری رہی ہے۔ جنرل آئزن ہاور آخری جرنیل تھے جو صدارتی عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ ایک عرصے کے بعد امریکی سیاست میں فوج کا اثر رینالڈ ریگن کے دور میں دوبارہ بڑھا، جب انہوں نے فوج کے ریٹائرڈ جرنیلوں کی حمایت حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ غالباً یہ ریٹائرڈ جرنیلوں کا خوف تھا کہ 1967ء میں صدر لنڈن جانسن نے ویت نام سے جنرل ویسٹ مور لینڈ کی وطن واپسی میں تاخیر کی، کیوں کہ انہیں ڈر تھا کہ جنرل وطن واپس آکر صدارتی انتخاب کے میدان میں نہ کود پڑیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے امریکا میں یہ روایت پڑ گئی ہے کہ صدارتی امیدوار، فوج کے ریٹائرڈ جرنیلوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
2004ء میں بش کے خلاف صدارتی امیدوار جان کیری نے بحریہ کے اپنے سابق ساتھیوں کے علاوہ 12ریٹائرڈ جرنیلوں کی حمایت حاصل کی تھی۔ لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی طرح 2008ء میں اوباما نے جنرل ویلزلے کلارک اور جنرل کولن پاول کی حمایت حاصل کی تھی۔ اب ٹرمپ کے انتخاب میں ریٹائرڈ جرنیلوں نے جس انداز سے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا ہے اور دونوں جماعتوں کے امیدواروں کی انتخابی مہم میں جس زور شور سے، ان کا ساتھ دیا ہے، اسے سابق فوجیوں کی طرف سے سیاست میں مداخلت تصور کیا جارہا ہے۔ ویسے بھی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں سابق جرنیلوں کی شمولیت پر سیاسی حلقوں میں سخت تشویش ظاہر کی جارہی ہے، انہیں خدشہ ہے کہ ایسے حالات میں جب مشرق وسطیٰ سے لے کر مشرق بعید تک جا بجا جنگیں بھڑکنے کا خطرہ ہے، کابینہ میں جرنیلوں کی بہتات، ملک کو جنگوں کی آگ میں دھکیل سکتی ہے۔ ان حالات میں جب کہ کابینہ میں ایک طرف سابق فوجی افسر حاوی ہیں اور دوسری جانب ارب پتی سرمایہ داروں اور بینکاروں کی بڑی تعداد ہے، اور دور دور تک سیاسی بصیرت رکھنے والے عناصر دکھائی نہیں دیتے ہیں، سیاسی مبصرین کو وائٹ ہاؤس میں آمرانہ رجحانات کے فروغ کا خطرہ بڑھتا نظر آتا ہے، وہ بھی ایسے وقت جب کہ ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ہر سو انتشار اور خلفشار نظر آتا ہے۔
ٹرمپ کو برسر اقتدار آئے پانچ ہفتے ہوئے ہیں۔ اس دوران کیون پیاک یونیورسٹی کے رائے عامہ کے تازہ ترین جائزے کے مطابق ٹرمپ کی پالیسیوں اور فیصلوں سے اتفاق کرنے والوں کی تعداد صرف 38 فی صد ہے جب کہ 55 فی صد عوام ان کے فیصلوں کے خلاف ہیں۔ رائے عامہ کا یہ جائزہ بلا شبہ صدر ٹرمپ کے لیے سخت تشویش کا باعث ہے۔