جنیوا میں شام میں قیام امن کے لیے مذاکرات میں شامل شامی اپوزیشن کے ایک سینیر رکن نے ایک بار پھر بشار الاسد کی حکومت پر داعش سے گٹھ جوڑ کا الزام عاید کیا ہے۔
عرب ٹی وی کے مطابق حزب اختلاف کی مذاکراتی ٹیم کے سینیر رکن کرنل فاتح حسون نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسد حکومت اور شدت پسند گروپ داعش کے درمیان خفیہ طور پر باہمی تعاون کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ایک بڑا ثبوت تاریخی شہر ‘تدمر’ داعش کے حوالے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ داعش اور اسد کے گٹھ جوڑ کے شواہد جلد اقوام متحدہ کو پیش کریں گے۔
کرنل فاتح حسون نے کہا کہ حمص میں فوجی تنصیبات پر حملہ خود اسد حکومت نے کرایا۔ اس حملے میں بشار الاسد کی حکومت کے ملوث ہونے کی بھی شواہد موجود ہیں۔ اس حملے کا مقصد جنیوا میں جاری امن بات چیت کو سبوتاژ کرنا تھا۔اپوزیشن کے ایک دوسرے رکن نصر الحریری نے شامی حکومت پر مذاکرات میں رخنہ ڈالنے کا الزام عاید کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری مذاکراتی وفد میں پانچ افراد شامل ہیں جو کہ قاہرہ اور ماسکو کے مذاکراتی وفود سے بھی کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شام کے سرکاری ایلچی بشارالجعفری نے نہتے شہریوں پر وحشیانہ بمباری پر کوئی بات نہیں کی۔نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نصر الحریری کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے معاملے میں اپوزیشن کا نقطہ نظر واضح اور دو ٹوک ہے۔ ہم دہشت گردی کی ہر شکل کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور شام میں غیرملکی ایجنڈا مسلط کرنے کے خلاف ہیں۔
قبل ازیں شام کے سرکاری مذاکرات کار بشار الجعفری نے ایک بیان میں اپوزیشن پر زور دیا تھا کہ وہ حمص میں ہونے والے بم دھماکوں کی کھل کر مذمت کرے۔ ان حملوں میں 42 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ فتح الشام محاذ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔