جرمنی میں تارکین وطن پر یومیہ 10 حملے

175

جرمن وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ ملک میں آنے والے تارکینِ وطن پرگذشتہ برس کے دوران تقریبا روزانہ کی بنیاد پر دس حملے ہوئے۔بتایا گیا ہے کہ پرتشدد کارروائیوں میں 43 بچوں سمیت 560 افراد زخمی ہوئے۔

جرمن وزارتِ داخلہ کے مطابق تین چوتھائی حملوں میں تارکینِ وطن کو ان کی رہائش گاہوں سے باہر کے علاقوں میں نشانہ بنایا گیا جبکہ 1000 کے قریب ایسے حملے تھے جن میں ان کی قیام گاہیں نشانہ بنیں۔جرمن چانسلر آنگیلا میرکل کی جانب سے تارکینِ وطن کے لیے دروازے کھولنے کے بعد ان پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔اس وقت جرمنی میں بہت سے تارکینِ وطن نے پناہ کی درخواستیں دے رکھی ہیں اور یورپ بھر میں دہشت گردی کے حملوں کا خطرہ ہے۔

مگر جرمنی میں گذشتہ برس پناہ کی تلاش میں آنے والوں کی تعداد میں کمی دیکھنے کو ملی۔ یہ تعداد سنہ 2015 میں چھ لاکھ تھی جبکہ گذشتہ برس یہ تعداد دو لاکھ اسی ہزار تھی۔ اس کی ایک اہم وجہ جرمنی جانے والے اہم راستے کی بندش تھی۔ یورپی یونین اور ترکی کے درمیان معاہدے کے بعد بلقان کے راستے سے آنے والے تارکینِ وطن کا راستہ بند ہو گیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق یہ معاملہ جرمنی کے رواں برس ستمبر میں ہونے والے انتخابات پر اثر انداز ہوگا۔ وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے ابتدائی اعدادوشمار میں کہا گیا کہ یہ پارلیمانی سوالات کے جواب میں جاری کیے گئے ہیں۔تاہم ان اعدادوشمار کا 2015 کے ساتھ مکمل طور پر موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے افراد پر انفرادی طور پر ہونے والے حملوں کا ریکارڈ سنہ 2016 میں رکھنے کا آغاز ہوا تھا۔

دسمبر 2015 میں باویریا کے علاقے واسیسٹین میں موجود ہوسٹلوں میں آگ بھڑک اٹھنے سے 12 افراد زخمی ہوئے تھے۔جنوری 2016 میں ویلیگن کے جنوب مغربی دیہی علاقے میں 170 افراد کے ہوسٹل کو نشانہ بنایا گیا تاہم اسے اڑانے میں انھیں ناکامی ہوئی۔فروری 2016 میں مشرقی جرمنی کے علاقے بوٹزین میں ایک ایسی عمارت کی چھت اڑ گئی جسے تارکینِ وطن کی رہائش گاہ کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔

ستمبر 2016 میں تارکینِ وطن اور رہائشیوں کے درمیان تصادم ہوا۔رواں برس ایک جرمن سیاستدان جن کا تعلق دائیں بازو کی جماعت این پی ڈی سے ہے کو آٹھ سال قید کی سزا ملی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے مک کے سپورٹس ہال جسے تارکینِ وطن کے لیے استعمال کیا جانا تھا میں آگ لگا دی تھی۔