کیا پاکستان کے حکمرانوں کا کوئی دین ایمان ہے؟

165

جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی وژن پروگرام میں فرمایا ہے کہ ہم نے طالبان کو بین الاقوامی طاقتوں کے تعاون سے تخلیق کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کی اس بات میں کوئی نیا پہلو نہیں ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کے سابق وزیر داخلہ ریٹائرڈ میجر جنرل نصیر اللہ بابر جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے طالبان کو تسلیم کرانے گئے تھے تو انہوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں سے کہا تھا کہ طالبان افغانی نہیں ہیں بلکہ وہ تو ’’ہمارے بچے‘‘ ہیں۔ یعنی پاکستانی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے مذکورہ بالا بیان میں طالبان کی پاکستانی بنیاد پر ایک بار پھر اصرار کیا ہے۔ تاہم انہوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ بعض بین الاقوامی طاقتیں بھی اس سلسلے میں ہماری مددگار تھیں۔ لیکن یہ بین الاقوامی طاقتیں کون تھیں؟ اس سوال کا جواب راز نہیں ہے۔ ہمارے حکمران کہتے رہے ہیں کہ طالبان کی تخلیق میں امریکا، برطانیہ، جرمنی اور تیل و گیس سے متعلق بعض کثیر القومی کمپنیاں شامل تھیں۔ لیکن یہاں اہم بات طالبان کی تخلیق نہیں، یہاں اہم بات یہ ہے کہ ایک وقت تھا کہ پاکستان کے حکمران طالبان کو اپنے بچے قرار دے رہے تھے لیکن نائن الیون کے بعد ہمارے حکمرانوں نے اپنے بچوں کو پلک جھپکتے میں بھوکے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے آگے ڈال دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے کا کوئی دین و ایمان نہیں۔ اس کے لیے اقتدار سے چمٹے رہنا ہی سب کچھ ہے۔ اس مسئلے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ایک جانب ہمارے حکمران طالبان کو اپنے بچے قرار دے رہے تھے اور دوسری جانب جنرل پرویز فرما رہے ہیں کہ طالبان کی تخلیق میں بین الاقوامی قوتیں بھی شامل تھیں۔ اس کا مفہوم اس کے سوا کیا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ اپنے بچوں کی تخلیق کے سلسلے میں بھی آزاد نہیں۔ بلکہ یہاں بھی وہ بین الاقوامی قوتوں کا محتاج ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک زمانے میں جنرل پرویز مشرف کہا کرتے تھے کہ دنیا کو جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرنا چاہیے لیکن پھر ایک وقت آیا کہ جنرل پرویز مشرف نے خود جہاد اور دہشت گردی کو ہم معنی بنادیا۔ اس زمانے میں ہم نے جنرل حمید گل کا ایک انٹرویو کیا تو موصوف فرمانے لگے کہ آپ جنرل پرویز مشرف کو سمجھ نہیں پا رہے۔ وہ کہنے لگے کہ ہمارے سر پر ایک بڑی بلا منڈلا رہی ہے اور جنرل پرویز اس بلا کو ٹالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ کا خیال درست نہیں۔ جنرل پرویز امریکا کے حوالے سے جو کچھ کررہے ہیں پوری عقیدت اور conviction کے ساتھ کررہے ہیں۔ جنرل حمید گل کہنے لگے کہ میں جنرل پرویز کی ’’chemistry‘‘ کو سمجھتا ہوں۔ لیکن چند ماہ بعد ہی جنرل حمید گل نے کہنا شروع کردیا کہ جنرل پرویز امریکا کے آلہ کار بن گئے ہیں۔ لیکن دین و ایمان سے عاری ہونے کا معاملہ صرف جنرل پرویز مشرف تک محدود نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو سیکولر تھے، لبرل تھے، سوشلسٹ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی کو پسند ہو یا ناپسند ہو سیکولر ازم بھی ایک چیز ہے۔ لبرل ازم بھی ایک شے ہے اور سوشلزم بھی ایک نظریہ تھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بھٹو صاحب کو اپنے ایمان یا conviction کے سہارے سیاست اور زندگی بسر کرنی چاہیے تھی۔ یہ پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے اچھی بات نہ ہوتی۔ لیکن ایک انسان کو اپنے نظریے یا اپنے ایمان کے ساتھ غداری نہیں کرنی چاہیے۔ بدقسمتی سے بھٹو صاحب نے یہی کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ ’’اسلامی سوشلزم‘‘ پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو اس اصطلاح کا کوئی مفہوم ہی نہ تھا۔ اسلام سوشلزم کی اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا اور دونوں کا ایک جگہ جمع ہونا محال تھا۔ لیکن اسلام اور سوشلزم کو ایک جگہ جمع کرکے بھٹو صاحب نے پاکستان کے عوام اور اپنے متاثرین دونوں کو خوش رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن اس سے ثابت ہوگیا کہ بھٹو صاحب کو نہ اسلام سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ وہ سوشلزم کے ساتھ سنجیدہ تھے۔ ان کا مسئلہ اقتدار اور عوامیت تھی۔ لیکن بھٹو صاحب کی اپنے نظریات سے غداری کا سلسلہ اسلامی سوشلزم پر نہ ٹھیرا۔ ان کے خلاف عوام میں ردِ عمل کا دائرہ وسیع ہوا تو انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ شراب پر پابندی عائد کردی اور ملک میں اتوار کے بجائے جمعے کی تعطیل کا اعلان کردیا۔ بھٹو صاحب پر دباؤ پڑتا اور ان کو خیال گزرتا کہ اقتدار میں رہنے کے لیے ڈاڑھی رکھنا ضروری ہے تو وہ ڈاڑھی رکھنے سے بھی نہ ہچکچاتے۔
جنرل ضیاء الحق اسلام پرست تھے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ جس نے عصبیت کا پرچم اُٹھایا وہ رسول اکرمؐ کی اُمت میں سے نہیں۔ لیکن جنرل ضیاء الحق نے دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی اور شہری سندھ بالخصوص کراچی میں جماعت اسلامی کو دیوار سے لگانے کے لیے ایم کیو ایم تخلیق کی۔ اسے پٹھان، مہاجر اور سندھی مہاجر فسادات کراکے قوت فراہم کی اور اس کی جرائم پیشہ سرگرمیوں سے چشم پوشی کی۔ جنرل ضیاء الحق پیپلز پارٹی کے اتنے خلاف تھے کہ انہوں نے سندھ میں جی ایم سید سے ہاتھ ملانے سے بھی گریز نہ کیا، حالاں کہ جی ایم سید ہندوستان کے ساتھ رابطے میں تھے۔ اس امر کی تصدیق جمعہ خان صوفی نے ’’فریب ناتمام‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اپنی یادداشتوں میں کی ہے۔ جمعہ خان صوفی نے اپنی یادداشتوں میں دعویٰ کیا ہے کہ بھارت سندھ میں بنگلا دیش کے منصوبے پر عمل کررہا تھا اور جئے سندھ کے رہنما اور کارکنان اس حوالے سے بھارت کے ساتھ روابط استوار کیے ہوئے تھے۔ جمعہ خان صوفی بائیں بازو کے سیاسی رہنما تھے اور انہوں نے کابل میں جلا وطن رہنما کی حیثیت سے وقت گزارا ہے۔
میاں نواز شریف پہلی بار اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے نج کاری کو پاکستان کے لیے ناگزیر قرار دیا تھا۔ تاہم انہوں نے فرمایا تھا کہ صرف ان اداروں کی نج کاری کی جائے گی جو بیمار یا غیر منافع بخش ہیں۔ لیکن انہوں نے جلد ہی نج کاری کے سلسلے میں بیمار اور صحت مند اداروں کی تمیز کو ختم کردیا اور انتہائی منافع بخش ادارے بھی نج کاری کی نظر کیے جانے لگے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت پی ٹی سی ایل کی نج کاری ہے۔ میاں صاحب نے جس سال پی ٹی سی ایل کا ایک حصہ نج کاری کی
آگ میں جھونکا اس سال پی ٹی سی ایل نے 14 ارب روپے کا منافع کمایا تھا۔ میاں صاحب نج کاری کے عشق میں ایسے مبتلا ہوئے کہ ان کی نج کاری مہم ملک دشمنی کی حدوں کو چھونے لگی۔ اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری تھی۔ یہ نج کاری سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئی تو معلوم ہوا کہ پاکستان اسٹیل ملز بھارت کا متل گروپ خرید رہا تھا۔ حالاں کہ سامنے موجود خریدار کوئی اور تھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میاں صاحب نج کاری کے جنون سے نجات حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ میاں صاحب جب نج کاری پر گفتگو کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کوئی افلاطون کلام کررہا ہے۔ حالاں کہ میاں صاحب کے پاس فہم و فراست کا کال پڑا ہوا ہے، وہ سی پیک کے حوالے سے دن رات چین چین کرتے رہتے ہیں لیکن وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس امر پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ چین نے گزشتہ 30 سال میں جتنی ترقی کی ہے نج کاری کے بغیر کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ چین ہر سلسلے میں میاں صاحب کے لیے ایک مثال ہے تو نج کاری کے سلسلے میں کیوں نہیں؟ میاں صاحب نے حال ہی میں ایک اور بیان کے ذریعے یہ بتایا ہے کہ ان کا کوئی دین ایمان نہیں۔ میاں صاحب نے فرمایا ہے کہ پاکستان کے عوام نے انہیں بھارت کے ساتھ دوستی کا مینڈیٹ دیا ہے۔ یہ بیان 21 ویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ اور سیاسی بے حیائی کا شاہکار ہے۔ اس لیے کہ میاں صاحب نے گزشتہ انتخابات کی مہم میں ایک بار بھی عوام سے یہ نہیں کہا کہ میں بھارت کے ساتھ دوستی کرنا چاہتا ہوں۔ چناں چہ تم مجھے بھارت کے ساتھ دوستی کی بنیاد پر ووٹ دو۔ پاکستان میں کوئی ایک معقول شخص بھی ایسا نہیں جو بھارت سے خوامخواہ دشمنی چاہتا ہو۔ لیکن میاں نواز شریف جس طرح بھارت کے جوتے چاٹ رہے ہیں اس سے بہتر تو بھٹو صاحب کا یہ قول تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے اور اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال تک جنگ کریں گے۔ کم از کم ان نعروں میں جوش و جذبہ تو تھا۔ لیکن میاں صاحب کی بھارت دوستی میں تو کچھ بھی نہیں۔ نہ ہوش، نہ جوش، نہ جذبہ، نہ عقل، نہ حب الوطنی، نہ عزت و تکریم۔