بد قسمت شام

156

عراق کے مغرب میں، ترکی کے جنوب میں، لبنان کے مشرق میں اور اردن اور اسرائیل کے شمال میں واقع، شام جس کے ساحل پر بحیرہ روم ٹھاٹیں مارتا ہے، اپنے جغرافیے کے لحاظ سے بے حد اہمیت کا حامل ہے اور یہی اہمیت اس کے لیے عذاب بن گئی ہے۔ سب سے بدنصیبی شام کی اس وقت یہ ہے کہ گزشتہ 6 سال سے عرب بہار کے نام سے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف، امریکا اور اس کے عرب اتحادیوں کی شہہ پر جو شورش برپا ہوئی تھی اس میں اب تک 4 لاکھ 70 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 11 ہزار 4 سو بچے شامل ہیں اور 48 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں جنہوں نے ترکی، لبنان، اردن، مصر اور عراق میں پناہ لی ہے۔ 66 لاکھ بے گھر شامی خود اپنے ملک کی سر زمین پر بے آسرا پڑے ہوئے ہیں اور دس لاکھ کے قریب بے گھر شامی، یورپ میں پناہ کے لیے در بدر پھر رہے ہیں۔
دسمبر 72 میں میں ذوالفقار علی بھٹو کے ہم راہ، دمشق میں تھا۔ بھٹو صاحب نے پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد، مشرق وسطیٰ کے ممالک کا طوفانی دورہ، ایران سے شروع کیا تھا اور ترکی، مراکش، الجزائر، تونس، لیبیا اور مصر ہوتے ہوئے، یہ دورہ دمشق میں ختم ہوا تھا۔ اس زمانے میں بشار الاسد کے والد حافظ الاسد صدر تھے، جنہوں نے پاکستان کے مصائب بھرے دور میں، شام اور شام کے عرب ساتھی ممالک کی طرف سے پاکستان کی ہر طرح سے مدد کا یقین دلایا تھا اور خاص طور پر پاکستان کے جوہری پروگرام کے لیے بھر پور مالی امداد فراہم کرنے کا پیمان کیا تھا۔ یہی وجہ تھی اس زمانے میں پاکستان کے جوہری پروگرام کو اسلامی بم کا پروگرام کہا جا رہا تھا۔
اس وقت دمشق، عرب سیاسی قوت کا مرکز تھا اور مشرق وسطیٰ کا ایک حسین درخشاں نگینہ دکھائی دیتا تھا۔ خوب صورت تاریخی امیہ مسجد کے سامنے سوق، دنیا بھر کی اشیاء اور خریداروں سے بھرا رہتا تھا۔ اس کے برابر میں دمشق کے مرکزی چوک میں ہر جمعہ کی شام کو مشہور گلو کارہ ام کلثوم کے نغمے ریلے ہوتے تھے جو قاہرہ کے تحریر اسکوائر سے نشر ہوتے تھے۔ چوک میں عوام کا اژدحام ایسی عقیدت سے یہ نغمے سنتا تھا کہ جیسے یہ الہامی نغمے ہوں۔
اب پچھلے 6 برسوں کے دوران شام کے شہر کے کھنڈرات کی تصویریں جب ٹیلی وژن پر نظر آتی ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پورا ملک کھنڈر بن کر رہ گیا ہے۔ صدر بشار الاسدکی حکومت کے خلاف شورش کا آغاز 2011 میں عرب بہار سے ہوا تھا جب کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی پشت پناہی میں سنی عرب باغی تنظیمیں عرب انقلاب کی آڑ میں بشار الااسد کے خلاف بغاوت میں کود پڑی تھیں۔ ان تنظیموں میں آزاد شام فوج، کردوں کی ڈیموکریٹک فورس، القاعدہ سے منسلک النصرہ اور اسلامی جہادیوں نے سیرین آرمی کے پرچم تلے، حلب اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ صدر اوباما کی طرف سے شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف شورش کا یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ یہ شام میں جمہوریت کے قیام کی جنگ ہے، لیکن ستم ظریفی یہ کہ بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے لیے، ان کے باغیوں کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرنے میں پیش پیش وہ عرب ممالک رہے ہیں جہاں خود جمہوریت مفقود ہے اور مطلق العنان حکومتیں برسر اقتدار ہیں، ایک اور ستم ظریفی یہ کہ 1990 سے 2003 کے دوران سی آئی اے نے شام میں بشارالاسد کے تعاون سے، ایذارسانی کے مرکز قائم کیے تھے، جہاں یورپ میں گرفتار شدہ شدت پسندوں کو شام بھیجا جاتا تھا اور وہاں عقوبت خانوں میں قیدکر کے، ایذا رسانی کے ذریعہ شدت پسندوں کے ساتھیوں اور ان کے منصوبوں کا سراغ لگایا جاتا تھا۔ یہ عقوبت خانے اس قدر ہولناک تھے کہ ان کا نام سنتے ہی امریکا کے مخالفین کانپ اٹھتے تھے۔ اب یہی سی آئی اے ہے جو بشار الاسد کی حکومت پر ایذا رسانی کا الزام لگا رہی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکا اور اس کے عرب اتحادی شام میں حکومت کا تختہ الٹنے کے در پے ہیں۔ پہلی عالم گیر جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ میں فرانس اور برطانیہ کے درمیان جو حصے بخرے ہوئے تھے اس کے بعد 1944 تک شام پر فرانس کا تسلط تھا، جس کے بعد شام کو ایک آزاد مملکت تسلیم کیا گیا تھا، لیکن اس کے فوراً بعد امریکا نے شام کے راستے مشرق وسطیٰ پر اپنا سیاسی اور فوجی اثر جمانے کے لیے شام کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوششوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کی شروعات 1949 سے ہوئی، جب سی آئی اے کی شہہ پر کرنل حسنی الزعیم نے صدر شکری القواتلی کا تختہ الٹا تھا۔ دمشق میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف، مائلز کوپ لینڈ نے اس سازش کا منصوبہ بنایا تھا۔ امریکیوں کو خطرہ تھا کہ کمیونسٹ پارٹی اقتدار پر قبضہ نہ کر لے۔ کرنل زعیم کے اقتدار کا دور مختصر تھا لیکن اس دوران، سی آئی اے نے سعودی عرب سے لبنان کے ساحل تک آرام کو کی تیل کی TAPLINE کی تعمیر کے منصوبہ کی توثیق کرالی۔ اب تک شام کی پارلیمنٹ میں اس پائپ لائین کی شدید مخالفت کی جارہی تھی۔ اسی کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کرنے اور اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے سمجھوتے پر دستخط کرائے گئے۔
پھر 1956 میں کرنل کوبانی کی قیادت میں اقتدار پر فوج کے قبضہ کا منصوبہ بنایا گیا، لیکن مصر پر اسرائیل کے حملہ کے پیش نظر منصوبہ ملتوی کردیا گیا۔ اس دوران یہ خبریں تھیں کہ شام کو کمیونزم کے غلبہ کا شدید خطرہ ہے جس کی روک تھام کے لیے ایک اور منصوبہ تیار کیا گیا لیکن یہ بھی ناکام رہا کیوں کہ شام کی انٹیلی جنس کو اس کی خبر مل گئی تھی۔
ستمبر 1957 میں امریکیوں نے برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کی مدد سے شام کی فوجی انٹیلی جنس کے سربراہ عبد الحمید سراج، فوج کے چیف آف اسٹاف عفیف البزری اور شام کی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر خالد بخداش کو قتل کرنے کی سازش تیار کی تھی، لیکن اس کا بھی راز فاش ہوگیا۔
وکی لیکس نے 2006 میں انکشاف کیا تھا کہ امریکی حکومت، شام کی حزب مخالف کو بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے مالی امداد فراہم کر رہی ہے۔ 2013 نے اعتراف کیا کہ سی آئی اے کے تربیت یافتہ حزب مخالف کے 50 اراکین کے گروپ کو شام بھیجا گیا ہے۔ اس کے بعد بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے شورش کے پیچھے امریکا کے ہاتھ کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ امریکا کے ساتھ عرب ممالک کے اتحاد کی سرگرمیاں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ امریکا اور عرب اتحاد کے ساتھ، شام کی اس تباہ کن خانہ جنگی کی ذمے داری سے بشار الاسد کی حکومت اور فوج بری نہیں ہو سکتی، لیکن شام اپنی بد قسمتی کے جال میں جکڑا ہوا ہے۔