طرحی مشاعروں کے انعقاد سے نئے شعرا کی تربیت ہوتی ہے۔ طرحی مشاعروں کے انعقاد میں انجمن بہار ادب (پاکستان) کا کردار قابل تحسین ہے اور اس کے لیے انجمن کے عہدے داران، بالخصوص پروفیسر عبدالصمد نور سہارنپوری کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ یہ بات انجمن بہار ادب (پاکستان) کے زیر اہتمام طرحی سالانہ مشاعرہ، جو گورنمنٹ ڈگری کالج برائے طلبا نارتھ کراچی میں منعقد کیا گیا، کی صدارت کرتے ہوئے معروف شاعر پروفیسر منظر ایوبی نے کہی۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی قمر وارثی، جب کہ مہمانان اعزازی آصف رضا رضوی، ڈاکٹر انیس الحق انیس اور ڈاکٹر جاوید منظر تھے۔ نظامت کے فرائض پروفیسر عبدالصمد نور سہارنپوری اور مہتاب عالم مہتاب نے انجام دیے۔ الحاج یوسف اسماعیل نے تلاوتِ کلام پاک سے مشاعرے کا آغاز کیا، جب کہ نعت عدنان عکس نے پیش کی، اس کے بعد مسند نشینوں کے علاوہ، جن شعرائے کرام نے مصرعہ طرح ’’یارب اس انجمن کے چراغوں کو کیا ہوا‘‘ پر اپنا طرحی کلام نذرِ سامعین کیا، ان میں اختر علی انجم، اکرام الحق اورنگ، قمرالزماں پیہم، افتخار حیدر، توقیر تقی، رضی عظیم آبادی، عبدالصمد نور سہارنپوری، صدیق راز ایڈووکیٹ، اخلاق درپن، مہتاب عالم مہتاب، عبدالمجید محور، نشاط غوری، حامد علی سیّد، پروفیسر صفدر علی خان انشا، آسی سلطانی، الحاج یوسف اسماعیل، فخر اللہ شاد، زاہد علی سیّد، افضل شاہ، محمد علی سوز، عدنان عکس، عبدالوحید تاج، شارق رشید، ذوالفقار حیدر پرواز، چاند علی چاند، جمیل ساحر، خالد احمد سیّد، الحاج نجمی، فضل اللہ فانی، وقار سحر اور دیگر شامل ہیں۔ مشاعرے میں انٹرنیشنل سامع جہانگیر خان نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
۔۔۔*۔۔۔
36-B لانڈھی کا علاقہ اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ وہاں کئی مشاعرے ہوچکے ہیں، جن میں سامعین کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے۔ یہ مشاعرے کسی گھر کے بجائے روڈ پر منعقد کیے گئے اور بہترین طریقے سے آرگنائز کیے گئے۔ اس علاقے میں علم دوست شخصیات بھی مقیم ہیں اور کئی نوجوان شعرا بہت اچھا کلام کہہ رہے ہیں۔ ان نوجوان شعرا کی سرپرستی ممتاز شاعر و صحافی اجمل سراج کررہے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو 36-B لانڈھی میں اشرف طالب کے مکان پر ایک طرحی نشست ترتیب دی گئی، جس کی صدارت کراچی کے سب سے سینئر شاعر رسا چغتائی نے کی، جب کہ اجمل سراج نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس طرحی مشاعرے کا مصرعہ تھا ’’وہ خوف تھا کہ گھر سے نکلتا نہ تھا کوئی‘‘ یہ مصرعہ توصیف تبسم کی غزل سے لیا گیا تھا۔ اس مصرعے پر جن شعرا نے کلام پیش کیا، ان میں راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)، اشرف طالب، ارشاد کیانی، زاہد عباس، ارشد شاد، عادل زادہ، کامران محور، اسامہ امیر، عبدالرحمٰن مومن شامل ہیں۔ اجمل سراج نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر مہینے کے آخری اتوار کو مکتب کے زیر اہتمام ایک طرحی مشاعرہ ہوا کرے گا۔ آئندہ ہونے والے مشاعرے کا مصرعۂ طرح ہے ’’چاند مہمان ہے مرے گھر میں‘‘ یہ مشاعرہ تین بجے شروع ہوگا اور پابندئ وقت ضروری ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک زمانے میں طرحی مشاعروں کا رواج تھا اور ہر شخص کی خواہش و کوشش ہوتی تھی کہ وہ طرحی مصرعے پر نئے نئے مضامین نظم کرے۔ طرحی مشاعروں سے نوجوان شعرا کی مشقِ سخن میں اضافہ ہوتا ہے اور سیکھنے کا موقع ملتا ہے، لیکن اب ہم’’سہل پسند‘‘ ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے طرحی مشاعروں کا سلسلہ کم ہوگیا ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ طرحی مشاعروں کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر ہم نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہم طرحی مشاعروں کے ذریعے اُردو زبان و ادب کے فروغ میں اپنا حصّہ ڈالیں گے۔ صاحب صدر نے اس موقع پر غیر طرحی غزلیں سُنائیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اس مشاعرے کی صدارت انور شعور نے کرنی تھی، جو کہ باوجوہ نہ آسکے، لہٰذا ہنگامی طور پر رسا چغتائی سے صدارت کی درخواست کی گئی۔
۔۔۔*۔۔۔
بزم یارانِ سخن کراچی، شعر و ادب کی دنیا میں ایک معتبر نام ہے۔ یہ ادارہ اس حوالے سے بھی بہت شہرت رکھتا ہے کہ ان کے پروگرام مقررہ وقت پر شروع ہوجاتے ہیں، جو کہ خوش آئند بات ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر جاذب قریشی نے بزم یارانِ سخن کے مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشاعروں کی روایت ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ ہر زمانے میں مشاعرے ہوتے رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وقتی طور پر کسی وجہ سے ادبی سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔ اس وقت کراچی میں تواتر کے ساتھ ادبی محافل منعقد کی جارہی ہیں۔ اس شہر کی تمام فعال ادبی تنظیمیں قابل مبارک باد ہیں کہ وہ اُردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعر اپنے زمانے اور وقت کا نباض ہوتا ہے، وہ اپنے اردگرد جو کچھ دیکھتا ہے، لکھ دیتا ہے، لیکن چند لوگ مصلحتاً بہت سی سچائیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں، جب کہ شاعر و ادیب کا کام معاشرہ کو آئینہ دکھانا ہے۔ ہر سماج کی اپنی سماجیات ہوتی ہیں وقت و حالات بدلتے رہتے ہیں، آج کے زمانے کی شاعری آج کے مسائل کے گرد گھومتی ہے۔ آج کے مشاعرے میں جو کلام پڑھا گیا، وہ اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ ان اشعار میں موجودہ عہد کی عکاسی کی گئی ہے۔ آج کی غزل کا مزاج بدل گیا ہے، اب غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ غم دوراں بھی غزل میں شامل ہے۔ مہمان خصوصی اکرم کنجاہی نے کہا کہ کراچی میں اس وقت بہت اچھی شاعری ہورہی ہے۔ زندگی کے تمام شعبے غزل میں شامل ہوگئے ہیں، لیکن غزل کی رنگینی اپنی جگہ ہے، روایتی غزل آج بھی پسند کی جاتی ہے۔ پروگرام میں فیروز ناطق خسرو، رونق حیات اور محسن اسرار مہمانان اعزازی تھے، جب کہ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔
بزم یاران سخن کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر اکرام الحق شوق نے کلمات اظہار تشکر پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج ورکنگ ڈے ہے اور ہمارے مشاعرے میں 35 شعرا نے کلام پڑھا ہے، البتہ ہر شاعر و شاعرہ نے سات سات اشعار سنائے، یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ہم نے بہت کم وقت میں بہت سے شعرا کو سماعت کیا۔ ہماری تنظیم اُردو ادب کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے، آج کی نشست میں بہت عمدہ کلام پڑھا گیا اور سامعین کی کثیر تعداد بھی موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج ہمارے درمیان ڈاکٹر شیر شاہ سید بھی موجود ہیں، جو کہ ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ یہ بے انتہا مصروف انسان ہیں، علاج معالجے کے شعبے میں ڈاکٹر شیر شاہ سید بہت معتبر نام ہے، اس کے ساتھ آپ بہترین افسانہ نگار بھی ہیں۔ ان کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں، ہم انہی کے تعاون سے PMA ہاؤس میں مشاعرے کراتے ہیں۔ مشاعرے میں سب سے پہلے ناظم مشاعرہ نے کلام پڑھا اس کے بعد راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) نے بحیثیت میزبانِ مشاعرہ اپنے اشعار سنائے اور تیسرے نمبر پر سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر اکرام الحق شوق نے اپنی روایتی غزلیں سنا کر مشاعرہ لوٹ لیا۔ ہر مشاعرے میں اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگ بہت سے شعرا کے بعد پڑھتے ہیں، یعنی مشاعرے کے اختتامی مراحل میں اشعار سناتے ہیں، لیکن بزمِ یاران سخن نے اپنے سرپرست اعلیٰ کو تیسرے نمبر پر پڑھوا کر نئی روایت قائم کی ہے، یعنی میزبانوں کو مہمان شعرا سے قبل پڑھنا چاہیے۔ دیکھیے اب اس روایت پر کتنے لوگ عمل کرتے ہیں۔ اس موقع پر جن شعرا نے اپنا کلام سنایا، ان میں صاحبِ صدر، مہمان خصوصی، مہمانانِ اعزازی، میزبان مشاعرہ، سرپرست بزم یاران سخن اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ اختر سعیدی، احمد سعید فیض آبادی، حیات رضوی امروہوی، مقبول زیدی، صفدر علی انشا، خالد رانا قیصر، آئرن فرحت، عارف شیخ، گلِ انور، غلام علی وفا، ذوالفقار حیدر پرواز، الحاج یوسف اسماعیل، حجاب فاطمہ، اسد قریشی، عبدالمجید محور، الحاج نجمی، سحر تاب رومانی، سعد الدین سعد، سخاوت علی نادر، عادل شاہ جہاں پوری، کشور عدیل جعفری، ماہ نور خان زادہ، جمیل ادیب سید، صدیق راز ایڈووکیٹ اور دیگر شعرا شامل تھے۔
۔۔۔*۔۔۔
تسلسل کے ساتھ مشاعروں کا باقاعدگی سے انعقاد ادب کی خدمت کا بہترین طریقہ ہے۔ بزم تقدیس ادب (پاکستان) کے زیر اہتمام مشاعرہ میں اچھا کلام سُننے کو ملا جو قابل ستائش ہے۔ یہ بات معروف شاعر پروفیسر منظر ایوبی نے بزم تقدیس ادب (پاکستان) کے زیر اہتمام منعقدہ غزل مشاعرہ میں صدارتی خطاب میں کہی۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی فیروز ناطق خسرو، جب کہ مہمان اعزازی راشدحسین راشد تھے۔ مشاعرہ میں فہیم برنی نے خصوصی شرکت کی۔ مشاعرے کا آغاز احمد سعید خان نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ جن شعرائے کرام نے اپنا کلام سُنایا، ان میں مسند نشینوں کے علاوہ سید آصف رضا رضوی، فیاض علی فیاض، احمد سعید خان، نور شمع نور، صدیق راز ایڈووکیٹ، عامر شیخ، شاعر حسین شاعر، سراج الدین سراج، چاند علی، حاجی یوسف اسماعیل، حیدر پرواز، ظفر بن نیر مدنی، زاہد علی سید، فخراللہ شادر، رفیع شیخ، آسی سلطانی، عبدالمجید محور، حامد علی سید، نسیم الحسن زیدی، جمال احمد جمال، رضی عظیم آبادی، علی اوسط جعفری و دیگر شامل ہیں۔ مشاعرے کے آغاز سے قبل نصیر کوٹی مرحوم اور شہزاد زیدی مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ مشاعرے میں یک جہتی کشمیر کے حوالے سے بھی کلام شامل کیا گیا۔ نظامت کے فرائض احمد سعید خان نے انجام دیے۔
nn
۔۔۔*۔۔۔
36-B لانڈھی کا علاقہ اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ وہاں کئی مشاعرے ہوچکے ہیں، جن میں سامعین کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے۔ یہ مشاعرے کسی گھر کے بجائے روڈ پر منعقد کیے گئے اور بہترین طریقے سے آرگنائز کیے گئے۔ اس علاقے میں علم دوست شخصیات بھی مقیم ہیں اور کئی نوجوان شعرا بہت اچھا کلام کہہ رہے ہیں۔ ان نوجوان شعرا کی سرپرستی ممتاز شاعر و صحافی اجمل سراج کررہے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو 36-B لانڈھی میں اشرف طالب کے مکان پر ایک طرحی نشست ترتیب دی گئی، جس کی صدارت کراچی کے سب سے سینئر شاعر رسا چغتائی نے کی، جب کہ اجمل سراج نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس طرحی مشاعرے کا مصرعہ تھا ’’وہ خوف تھا کہ گھر سے نکلتا نہ تھا کوئی‘‘ یہ مصرعہ توصیف تبسم کی غزل سے لیا گیا تھا۔ اس مصرعے پر جن شعرا نے کلام پیش کیا، ان میں راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)، اشرف طالب، ارشاد کیانی، زاہد عباس، ارشد شاد، عادل زادہ، کامران محور، اسامہ امیر، عبدالرحمٰن مومن شامل ہیں۔ اجمل سراج نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر مہینے کے آخری اتوار کو مکتب کے زیر اہتمام ایک طرحی مشاعرہ ہوا کرے گا۔ آئندہ ہونے والے مشاعرے کا مصرعۂ طرح ہے ’’چاند مہمان ہے مرے گھر میں‘‘ یہ مشاعرہ تین بجے شروع ہوگا اور پابندئ وقت ضروری ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک زمانے میں طرحی مشاعروں کا رواج تھا اور ہر شخص کی خواہش و کوشش ہوتی تھی کہ وہ طرحی مصرعے پر نئے نئے مضامین نظم کرے۔ طرحی مشاعروں سے نوجوان شعرا کی مشقِ سخن میں اضافہ ہوتا ہے اور سیکھنے کا موقع ملتا ہے، لیکن اب ہم’’سہل پسند‘‘ ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے طرحی مشاعروں کا سلسلہ کم ہوگیا ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ طرحی مشاعروں کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر ہم نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہم طرحی مشاعروں کے ذریعے اُردو زبان و ادب کے فروغ میں اپنا حصّہ ڈالیں گے۔ صاحب صدر نے اس موقع پر غیر طرحی غزلیں سُنائیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اس مشاعرے کی صدارت انور شعور نے کرنی تھی، جو کہ باوجوہ نہ آسکے، لہٰذا ہنگامی طور پر رسا چغتائی سے صدارت کی درخواست کی گئی۔
۔۔۔*۔۔۔
بزم یارانِ سخن کراچی، شعر و ادب کی دنیا میں ایک معتبر نام ہے۔ یہ ادارہ اس حوالے سے بھی بہت شہرت رکھتا ہے کہ ان کے پروگرام مقررہ وقت پر شروع ہوجاتے ہیں، جو کہ خوش آئند بات ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر جاذب قریشی نے بزم یارانِ سخن کے مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشاعروں کی روایت ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ ہر زمانے میں مشاعرے ہوتے رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وقتی طور پر کسی وجہ سے ادبی سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔ اس وقت کراچی میں تواتر کے ساتھ ادبی محافل منعقد کی جارہی ہیں۔ اس شہر کی تمام فعال ادبی تنظیمیں قابل مبارک باد ہیں کہ وہ اُردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعر اپنے زمانے اور وقت کا نباض ہوتا ہے، وہ اپنے اردگرد جو کچھ دیکھتا ہے، لکھ دیتا ہے، لیکن چند لوگ مصلحتاً بہت سی سچائیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں، جب کہ شاعر و ادیب کا کام معاشرہ کو آئینہ دکھانا ہے۔ ہر سماج کی اپنی سماجیات ہوتی ہیں وقت و حالات بدلتے رہتے ہیں، آج کے زمانے کی شاعری آج کے مسائل کے گرد گھومتی ہے۔ آج کے مشاعرے میں جو کلام پڑھا گیا، وہ اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ ان اشعار میں موجودہ عہد کی عکاسی کی گئی ہے۔ آج کی غزل کا مزاج بدل گیا ہے، اب غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ غم دوراں بھی غزل میں شامل ہے۔ مہمان خصوصی اکرم کنجاہی نے کہا کہ کراچی میں اس وقت بہت اچھی شاعری ہورہی ہے۔ زندگی کے تمام شعبے غزل میں شامل ہوگئے ہیں، لیکن غزل کی رنگینی اپنی جگہ ہے، روایتی غزل آج بھی پسند کی جاتی ہے۔ پروگرام میں فیروز ناطق خسرو، رونق حیات اور محسن اسرار مہمانان اعزازی تھے، جب کہ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔
بزم یاران سخن کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر اکرام الحق شوق نے کلمات اظہار تشکر پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج ورکنگ ڈے ہے اور ہمارے مشاعرے میں 35 شعرا نے کلام پڑھا ہے، البتہ ہر شاعر و شاعرہ نے سات سات اشعار سنائے، یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ہم نے بہت کم وقت میں بہت سے شعرا کو سماعت کیا۔ ہماری تنظیم اُردو ادب کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے، آج کی نشست میں بہت عمدہ کلام پڑھا گیا اور سامعین کی کثیر تعداد بھی موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج ہمارے درمیان ڈاکٹر شیر شاہ سید بھی موجود ہیں، جو کہ ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ یہ بے انتہا مصروف انسان ہیں، علاج معالجے کے شعبے میں ڈاکٹر شیر شاہ سید بہت معتبر نام ہے، اس کے ساتھ آپ بہترین افسانہ نگار بھی ہیں۔ ان کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں، ہم انہی کے تعاون سے PMA ہاؤس میں مشاعرے کراتے ہیں۔ مشاعرے میں سب سے پہلے ناظم مشاعرہ نے کلام پڑھا اس کے بعد راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) نے بحیثیت میزبانِ مشاعرہ اپنے اشعار سنائے اور تیسرے نمبر پر سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر اکرام الحق شوق نے اپنی روایتی غزلیں سنا کر مشاعرہ لوٹ لیا۔ ہر مشاعرے میں اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگ بہت سے شعرا کے بعد پڑھتے ہیں، یعنی مشاعرے کے اختتامی مراحل میں اشعار سناتے ہیں، لیکن بزمِ یاران سخن نے اپنے سرپرست اعلیٰ کو تیسرے نمبر پر پڑھوا کر نئی روایت قائم کی ہے، یعنی میزبانوں کو مہمان شعرا سے قبل پڑھنا چاہیے۔ دیکھیے اب اس روایت پر کتنے لوگ عمل کرتے ہیں۔ اس موقع پر جن شعرا نے اپنا کلام سنایا، ان میں صاحبِ صدر، مہمان خصوصی، مہمانانِ اعزازی، میزبان مشاعرہ، سرپرست بزم یاران سخن اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ اختر سعیدی، احمد سعید فیض آبادی، حیات رضوی امروہوی، مقبول زیدی، صفدر علی انشا، خالد رانا قیصر، آئرن فرحت، عارف شیخ، گلِ انور، غلام علی وفا، ذوالفقار حیدر پرواز، الحاج یوسف اسماعیل، حجاب فاطمہ، اسد قریشی، عبدالمجید محور، الحاج نجمی، سحر تاب رومانی، سعد الدین سعد، سخاوت علی نادر، عادل شاہ جہاں پوری، کشور عدیل جعفری، ماہ نور خان زادہ، جمیل ادیب سید، صدیق راز ایڈووکیٹ اور دیگر شعرا شامل تھے۔
۔۔۔*۔۔۔
تسلسل کے ساتھ مشاعروں کا باقاعدگی سے انعقاد ادب کی خدمت کا بہترین طریقہ ہے۔ بزم تقدیس ادب (پاکستان) کے زیر اہتمام مشاعرہ میں اچھا کلام سُننے کو ملا جو قابل ستائش ہے۔ یہ بات معروف شاعر پروفیسر منظر ایوبی نے بزم تقدیس ادب (پاکستان) کے زیر اہتمام منعقدہ غزل مشاعرہ میں صدارتی خطاب میں کہی۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی فیروز ناطق خسرو، جب کہ مہمان اعزازی راشدحسین راشد تھے۔ مشاعرہ میں فہیم برنی نے خصوصی شرکت کی۔ مشاعرے کا آغاز احمد سعید خان نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ جن شعرائے کرام نے اپنا کلام سُنایا، ان میں مسند نشینوں کے علاوہ سید آصف رضا رضوی، فیاض علی فیاض، احمد سعید خان، نور شمع نور، صدیق راز ایڈووکیٹ، عامر شیخ، شاعر حسین شاعر، سراج الدین سراج، چاند علی، حاجی یوسف اسماعیل، حیدر پرواز، ظفر بن نیر مدنی، زاہد علی سید، فخراللہ شادر، رفیع شیخ، آسی سلطانی، عبدالمجید محور، حامد علی سید، نسیم الحسن زیدی، جمال احمد جمال، رضی عظیم آبادی، علی اوسط جعفری و دیگر شامل ہیں۔ مشاعرے کے آغاز سے قبل نصیر کوٹی مرحوم اور شہزاد زیدی مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ مشاعرے میں یک جہتی کشمیر کے حوالے سے بھی کلام شامل کیا گیا۔ نظامت کے فرائض احمد سعید خان نے انجام دیے۔
nn