سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریماکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی خبررساں ادارے کو خبر بیچنے کے لیے ناموس بیچنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد سے متعلق کیس کی سماعت کی تو ایس ایس پی ساجد کیانی،سیکرٹری داخلہ اور چیرمین پی ٹی اےعدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران ڈائرکٹر ایف آئی اےمظہر کاکاخیل نے عدالت کو بتایا کہ 3متنازع ویب پیجز کےعلاوہ 6کا مزید پتا چلایا ہے جس پر متنازع مواد موجود ہےجن کےخلاف عالمی قوانین کےتحت پٹیشن تیارکرنےاور اس کو عالمی عدالت میں بھیجنےپربھی غورکررہے ہیں۔
ڈائریکٹر ایف آئی نے کہا کہ ان ویب پیچز کے خلاف توہین رسالت کانہیں نفرت انگیز مواد کاکیس بناکر بھجوایا ہے جو انکے قانون میں جرم ہے اور ابھی معاملہ انکوائری کے مرحلے میں ہے اس لئے ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔
سیکرٹری داخلہ نے سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ 70 متنازع پیجز بند کر دیے گئے ہیں جب کہ فیس بک انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا ہے اور وہ تعاون کر رہے ہیں۔ چئیرمین پی ٹی اے نے عدالت میں کہا کہ کچھ ٹی وی شوزسےیہ تاثر مل رہا ہےکہ ہم کام نہیں کررہے۔
جسٹس شوکت عزیز نے اس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کریں انہیں تویہ بھی تکلیف ہےکہ آرڈرلکھواتے ہوئے جج صاحب کےآنسو کیوں نکل آئے؟ اپنے ریماکس میں شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ آئین وقانون میں ترمیم کاحق پارلیمان اورتشریح کاحق عدلیہ کو ہے، ٹی وی اسکالرز جتنی مرضی کوشش کرلیں،آئین میں ترمیم نہیں کرسکتے، بتائیں کہ آزادی اظہاررائےپر کیا قدغن ہیں اورخلاف ورزی کی کیا سزا ہے؟ ۔ انہوں نے کہا کہ خبر بیچنے کے لیے ناموس رسالت بیچنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈی جی وزارت اطلاعات کو ہدایت کی کہ الیکٹرانک،پرنٹ میڈیاپر آئین کےآرٹیکل19کی وضاحت چلوائیں۔انہوں نے کہا کہ ڈائرکٹرایف آئی اے،آئی جی اسلام آبادگستاخوں کی نشاندہی میں سخت احتیاط برتیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بے گناہ پر الزام نہ لگے اور ہم ایسافیصلہ دینےکی کوشش کرینگےکہ آیندہ اس چیزکااعادہ نہ ہو۔