مودی کی فتح یا مسلمانوں سے انتقام ؟

150

ہندوستان میں گزشتہ ہفتہ پانچ ریاستوں میں ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کے نتائج کے بعد ہندوستان کی سیاست کا نقشہ اچانک بدل گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کے ہندوستان کی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اب ریاستوں میں پنجاب میں دس سال بعد، کانگریس، بھارتیہ جنتا پارٹی اور سکھوں کی اکالی دل کو شکست دے کر برسر اقتدار آئی ہے۔ گوا، منی پور اور اتر کھنڈ میں بھارتیہ جنتا پارٹی فتح مند رہی ہے لیکن سب سے اہم اور حیران کن جیت بھارتیہ جنتا پارٹی کو اتر پردیش میں ہوئی ہے جو ہندوستان کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست ہے اور ہندوستان کی سیاست کا قلب مانی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ میں اس کی ۸۰نشستیں ہیں اور جو بھی پارٹی اتر پردیش کو جیتنے میں کامیاب رہتی ہے مرکز میں اقتدار اس ہی کی جھولی میں آتا ہے۔
نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی، پندرہ سال بعد اتر پردیش میں بر سرا قتدار آئی ہے لیکن جس اکثریت کے ساتھ اسے جیت ہوئی ہے اس پر سب ششدر رہ گئے ہیں۔ ریاستی اسمبلی کی ۴۰۳ نشستوں میں سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے ۳۱۲ نشستیں جیتی ہیں جو اسی کے عشرہ میں راجیو گاندھی کے بعد کسی جماعت نے اتنی نہیں جیتیں۔ ایک زمانہ تھا جب اتر پردیش میں ۲۲ فی صد مسلمان، بادشاہ گر مانے جاتے تھے اور طاقت کا توازن ان کے ہاتھ میں رہتا تھا، لیکن گزشتہ ہفتہ کے انتخابات کے نتائج نے یہ صورت حال سراسر بدل دی اور اب دلتوں کی طرح مسلمان سیاسی اچھوت بن گئے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ مغربی اتر پردیش میں جہاں مسلمان ووٹروں کی تعداد ایک تہائی ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی نے ۴۲ میں سے ۳۱ نشستوں پر قبضہ کر لیا۔ حتی کی دارالعلوم کے شہر دیو بند میں بھارتیہ جنتا پارٹی چھائی رہی اور ایک مسلمان بھی یہاں نہ جیت سکا۔
مودی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی فتح کی بڑی کایاں اور منظم حکمت عملی اختیار کی تھی۔ یہ دو مکھی حکمت عملی تھی ایک طرف اس کا مقصد مسلمانوں اور ان کی حامی پارٹیوں سے انتقام لینا تھا اور دوسری جانب لوک سبھا کے اگلے عام انتخابات کے لیے اس بڑی ریاست پر قبضہ جمانا تھا۔ اتر پردیش کے انتخابات سے بہت پہلے سے مسلمانوں کو دیش ودھروہئی، وطن دشمن قرار دینے کی مہم چلائی گئی اور اسی کے ساتھ اپنی مد مقابل، کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہو جن سماج وادی پارٹی کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی گئی کہ یہ مسلمانوں کی حمایت کرتی ہیں، یوں یہ بھی وطن دشمن جماعتیں ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان جماعتوں کے غیر مسلم ووٹروں نے بھی ان جماعتوں کے مسلم امیدواروں کو ووٹ نہیں دیے۔ پھر ان جماعتوں کے مسلم امیدواروں نے ایک دوسرے کے ووٹ کاٹے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس بار صرف ۲۵ مسلم امیدوار کامیاب ہوئے جب کہ پچھلی اسمبلی میں مسلم اراکین کی تعداد ۶۷ تھی۔ مودی کی یہ حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی اور ان تمام جماعتون کو منہ کی کھانی پڑی جن کے بارے میں مسلم دوست پارٹیوں کا تاثر دیا گیا تھا۔ مودی نے انتخابات سے پہلے مسلمانوں میں تین طلاق کے خلاف مہم چلا کر مسلمان خواتین کی حمایت حاصل کی۔ بہت سے مبصرین کو تعجب ہوا کہا بعض علاقوں میں مسلم خواتین کی بڑی تعداد نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ دیے۔
نریندر مودی کی انتخابی حکمت عملی کا ایک اور کایاں پہلو یہ تھاجسے ساٹھ فی صد کا فارمولا کہا جاتا ہے۔ ان کی رائے میں مسلمان، یادو برادری اور دلت، بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے اس لیے بقیہ ساٹھ فی صد ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے پر تمام تر زور دیا جانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے سوشل انجینئرنگ کی اور برہمن، بنیا، ٹھاکر اور دلت نوجوانوں کی حمایت حاصل کر کے انہیں بڑے پیمانے پر اپنے امیدواروں کی فہرست میں شامل کیا۔ مودی نے اپنے چار سو سے زیادہ امیدواروں میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں کیا۔ اس عمل میں مودی نے اپنی پارٹی کے پرانے اراکین کو ٹکٹ دینے کے بجائے اس طبقہ کے افراد کی بڑی تعداد کو ٹکٹ دے کر گو پارٹی میں بغاوت کا خطرہ مول لیا تھا، لیکن وہ اس حکمت عملی میں کامیاب رہے۔ نتیجہ یہ کہ جہاں ۲۰۱۲ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف ۸ نشستیں ملی تھی اس بار حیرت انگیز طور پر ۳۱۲ نشستیں ملیں۔
بہت سے لوگوں کو اس پر سخت تعجب ہوا ہے کہ نوٹ بندی کا انتخابات پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ خود مودی کو خطرہ تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے عوام کو جو سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کی بناء پر انہیں عوام کی ناراضی کا مقابلہ کرنا پڑے گا لیکن انتخابی مہم کے دوران، یہ حیرت انگیز بات تھی کہ غریب علاقوں میں بھی عوام نے نوٹ بندی کو امیروں اور کرپشن پر حملہ سے تعبیر کیا اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس کا غریبوں کو فائدہ پہنچے گا۔ نریندر مودی نے ایک چال یہ بھی چلی کہ انتخابات سے پہلے انہوں نے دھڑا دھڑ غیر ممالک کے دورے کر کے عوام میں یہ تاثر دیا کہ انہوں نے دنیا میں ہندوستان کاامیج بہتر کیاہے اور وہ مقبولیت حاصل کی جو حال میں کسی وزیر اعظم نے حاصل نہیں کی۔ حتی کہ سعودی عرب کے فرماں روا نے انہیں ملک عبد العزیز کا اعلیٰ ترین اعزاز دیا اور متحدہ عرب امارات نے مندر کی تعمیر کے لیے ایک بڑی زمین کا عطیہ بھی دیا۔
پنجاب میں البتہ مودی کی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے پاکستان کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی تھی اور خاص طور پر پاکستان کا پانی بند کر کے پنجاب کو سیراب کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن وہاں اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اور بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی اتحادی شرومنی اکالی دل کو اسمبلی کی ۱۱۷ نشستوں میں صرف اٹھارہ نشستیں ملیں۔ کانگریس نے ۷۷نشستوں پر قبضہ جما کر اتحاد کو پچھاڑ دیا، اتر کھنڈ میں کانگریس کی گیارہ نشستوں کے مقابلہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ۵۷ نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ گوا میں گو کانگریس کی ۱۷ نشستوں کے مقابلہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ۱۳ نشستیں ملی ہیں لیکن دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر وہاں حکومت بنا لی ہے۔ یہی صورت حال منی پور کی ہے جہاں کانگریس کو ۲۸ نشستیں ملی ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو ۲۳ لیکن وہاں بھی دوسری جماعتوں کے اشتراک سے حکومت بنائی جا رہی ہے۔
بہر حال یہ حالیہ انتخابات خاص طور پر اتر پردیش کے انتخابات، جہاں ہندوستان کی سیاست کے ایک نئے موڑ سے تعبیر کیے جا رہے ہیں وہاں سخت تشویش کا بھی باعث ہیں۔ بلا شبہ اتر پردیش کے نتائج مسلم قیادت کے لیے سنگین چیلنج ہیں۔ یہ انتخابات مسلمانوں نے کسی حکمت عملی کے بغیر لڑے جس میں مسلم امیدوار ایک دوسرے کے دو بدو تھے، یہ ان کی سیاسی ناکامی تھی جس کا نتیجہ بربادی کا نکلا۔