مگر یہ دور کی باتیں کوئی نادان کیا سمجھے

161

ہمارا ملک بھی عجیب ہے کہ اٹلانٹک کے پار، آٹھ ہزار میل دور، امریکا میں پاکستان کے بھگوڑے سابق سفیر نے وہاں ایک اخبار میں ایک مضمون کیا لکھا کہ پاکستان کو ایسے ہلا کر رکھ دیا کہ جیسے اس کی چولیں ڈھیلی ہوگئی ہوں۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے مضمون میں جو لکھا گیا ہے، اس کے بارے میں بہت کچھ پہلے سے سب کو معلوم تھا۔ یہ محض باسی کڑھی میں ابال ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں تھی کہ حسین حقانی نے اس وقت جب وہ امریکا میں سفیر تھے، سابق صدر آصف علی زرداری کے کہنے پر سی آئی اے اور بلیک واٹر کے ہزاروں عمل داروں کو پاکستان میں خصوصی کارروائیوں کے لیے ویزے جاری کیے تھے۔ ہاں حسین حقانی نے پہلی بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ سی آئی اے کے ان عمل داروں نے پاکستان میں اسامہ بن لادن کی کمین گاہ کا سراغ لگایا اور یوں اسامہ کی ہلاکت کے سہرے میں ایک پھول ان کے نام کا بھی ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ حسین حقانی نے قومی سلامتی کو اعلیٰ سطح پر نقصان پہنچایا ہے لہٰذا ان کے خلاف پارلیمانی کمیشن قائم کیا جائے۔ خواجہ صاحب کا یہ مطالبہ مضحکہ خیز نظر آتا ہے کہ حکومت کا ایک وزیر حکومت سے پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہے۔ خواجہ آصف نے حسین حقانی پر قومی سلامتی کی سنگین خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے، وزیر دفاع کی حیثیت سے خود، خواجہ آصف کا یہ بنیادی فرض ہے کہ وہ فی الفور، ان تمام شخصیات کے خلاف اقدامات کریں، جن کی نشان دہی امریکی جاسوسوں کو ویزوں کے اجراء کے سلسلے میں حسین حقانی نے اپنے مضمون میں کی ہے۔
لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ پارلیمانی کمیشن کے قیام سے کیا حاصل ہوگا؟ سوائے اس کے کہ اس معاملہ کو بھی کمیشن کے پردہ میں چھپا دیا جائے۔ پاکستان میں یہ ریت نہیں کہ جو بھی کمیشن مقرر کیا جائے اس کی رپورٹ شائع کی جائے اور عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ ہمارے حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ عوام جن کے نام پر یہ حکمرانی کرتے ہیں، انہیں اصل حقائق جاننے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایک طویل فہرست ہے ان کمیشنوں کی جو اہم واقعات کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے تھے لیکن جن کی رپورٹ سرکاری تجوریوں میں بند پڑی ہے۔ سب سے اہم رپورٹ، ملک کے دو لخت ہونے اور ملک کے دفاع میں فوج کی ناکامی کے بارے میں حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ ہے جو ذوالفقار علی بھٹو نے تجوری میں مقفل کر دی تھی کیوں کہ نشیب میں پانی مرتا تھا۔ اور ملک کے دو لخت ہونے میں ان کا رول بے نقاب ہوتا تھا۔ وہ تو ہندوستان کے میڈیا کا شکر ادا کیا جائے کہ اس نے نہ جانے کہاں سے کھوج کر یہ رپورٹ افشا کر دی ورنہ پاکستانی عوام کو اس کے بارے میں بالکل پتا نہ چلتا۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد بھی پاکستان کی شکست کے ذمے داروں کا قطعی کوئی احتساب نہیں ہوا۔
یہی حال، ایبٹ آباد میں ۲ مئی ۲۰۱۱ کو امریکی سی سیلز کے حملہ اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بارے میں عدالتی کمیشن کی رپورٹ کا ہوا۔ عدالت عظمیٰ کے جج، جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں عدالتی کمیشن نے ۵۲ سماعتوں کے بعد ۴ جنوری ۲۰۱۳ کو رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کردی تھی۔ ۳۳۶صفحات کی اس رپورٹ میں ان تمام پہلووں کا جائزہ لیا گیا تھا کہ اسامہ بن لادن کیسے ۹ سال تک پاکستان میں چھپے رہے اور ایبٹ آباد میں ۲ گھنٹے تک امریکی حملے کے سلسلے میں غفلت اور اس کی مزاحمت میں ناکامی کا کون کون ذمے دار تھا۔
ایبٹ آباد کے حملے کے فوراً بعد میمو گیٹ کے معاملہ نے سر اٹھایا۔ یہ معاملہ اس میمو کے بار ے میں تھا جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کو فوج کی طرف سے تختہ الٹے جانے کا خطرہ تھا۔ صدر زرداری کی طرف سے حسین حقانی نے امریکی ایڈمرل مولن کے نام ایک میمو لکھا تھا جس میں پیپلز پارٹی کی حکومت بچانے کے لیے اوباما انتظامیہ سے مدد طلب کی گئی تھی۔ حسین حقانی نے یہ میمو ایک امریکی شہری، منصور اعجاز کے ہاتھ ایڈمرل مولن کو بھجوایا تھا۔ عدالت عظمیٰ پاکستان نے جب اس بارے میں تفتیش شروع کی تو حسین حقانی نے امریکی سفیر کی حیثیت سے استعفا دے دیا۔ یہ واضح نہیں کہ انہوں نے کس کے کہنے پر یا کس کے دباؤ کے تحت استعفا دیا تھا۔ اپریل ۲۰۱۲ میں عدالت عظمیٰ میں حسین حقانی کی گرفتاری اور ان کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ کی درخواست دی گئی۔ لیکن اس سے پہلے ہی حسین حقانی ملک سے فرار ہوگئے۔ بعد میں جب عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ دیا کہ حسین حقانی نے ہی مولن کے نام میمو تحریر کیا تھا توان کی انٹر پول کے ذریعے گرفتاری کی کوشش کی گئی لیکن حقانی نے پاکستان واپس آنے سے صاف انکار کردیا۔ یوں یہ معاملہ بھی اپنے نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔
اس وقت حسین حقانی چھلاوا ہیں، اور اس مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے تحفظ اور عنایات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ حقانی اس کایاں پرندے کی مانند ہیں جو ہوا کے رخ کے ساتھ ہر درخت کی ٹہنی پر پھدک کر جا بیٹھتا ہے اور پھل کترنے کے بعد دوسرے درخت پر جا بیٹھتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ۱۹۸۸ میں انتخابات کے دوران جب میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان معرکہ جاری تھا۔ میں نے بی بی سی اردو سروس کے لیے حسین حقانی سے انٹرویو کیا تھا۔ اس انٹرویو میں حقانی نے بے نظیر بھٹو کے بارے میں اخلاق سے گری ہوئی جو گندی زبان استعمال کی اس پر مجھے سخت حیرت ہوئی اور اسے نشر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھر ۱۹۹۳ میں جب بے نظیر بھٹو بر سر اقتدار آئیں تو میں حقانی کو بے نظیر بھٹو کے مشیر کے عہدے پر فائز دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ میں نے بے نظیر بھٹو کے ایک قریبی معتمد، اپنے قریبی دوست بشیر ریاض سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ تو بشیر ریاض نے یہ جواز پیش کیا کہ بے نظیر بھٹو، اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ رکھنا چاہتی ہیں۔ حسین حقانی، بے نظیر بھٹو کے ایسے ہی قریبی مشیر بنے رہے جس طرح وہ ۱۹۹۰ سے ۱۹۹۲ تک میاں نواز شریف کے قریبی مشیر تھے۔ پھر ۱۹۹۲ سے ۱۹۹۳ تک ان کی حکومت کے سری لنکا میں سفیر رہے۔
اب حسین حقانی کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے، جو عملی طور پر محال ہے کیوں کہ اس وقت ان پر امریکی دست شفقت ہے دوسرے ان کو پاکستان لانا یکسر نا ممکن ہے۔ ہاں البتہ ان شخصیات کے خلاف بلا شبہ مقدمہ چلایا جانا چاہیے جن کی حقانی نے ہزاروں امریکی جاسوسوں کے ویزوں کے اجراء کے سلسلے میں نشان دہی کی ہے۔ اس بارے میں بھی تفتیش ہونی چاہیے کہ عدالت عظمیٰ میں میمو گیٹ کے مقدمے کے دوران انہیں امریکی سفیر کے عہدہ سے مستعفی ہونے کا کس نے مشورہ دیا یا ان پر دباؤ ڈالا اور ملک سے فرار ہونے میں کس نے مدد کی؟ اس بات کی بھی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے کہ اس وقت، حسین حقانی کا یہ مضمون لکھنے کا اصل مقصد کیا ہے۔
مگر یہ دور کی باتیں کوئی نادان کیا سمجھے۔