مودی کا ہم زاد ، اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ

135

وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کی سب سے بڑی ریاست، اتر پردیش میں وزیر اعلیٰ، ہندو قوم پرستی ہندوتوا کے علم بردار اورکٹر ہندو فرقہ پرست یوگی ادتیا ناتھ کو مقرر کیا ہے، جو نریندر مودی کے ہم زاد کہلاتے ہیں۔ اتر پردیش کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ۴۰۳ نشستوں میں ۳۱۲ نشستیں حاصل کرنے پر ، بھارتیہ جنتا پارٹی کو جو زبردست تاریخی فتح حاصل ہوئی ہے، اس کے بعد، معلوم ہوتا ہے کہ مودی کا ایسا سینہ پھول گیا ہے کہ ان کے سامنے اب نروان کا واحد راستہ ہندو اکثریت کی خوشنودی ہے اور ریاست کے ۲۲ فی صد مسلمان، محض نرپھل اور نردھنی (بے ثمر) ہیں یوں مودی کے سامنے سیاسی مصلحتوں کی کوئی رکاوٹ یا دیوار نہیں رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ۴۴ سالہ گورکھ پور کے سب سے بڑے ناتھ مندر کے مہنت سوامی ادتیا ناتھ کو اسی طرح راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے حکم پر وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا ہے جس طرح ۲۰۱۴ میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے حکم پر نریندر مودی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کا وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کیا گیا تھا۔ آر ایس ایس نے ایک لمحے کے لیے بھی اس سلسلہ میں تردد نہیں کیا کہ سوامی کے تقرر کے ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر کیا نتائج مرتب ہوں گے اور ہندوستان کی سیاست پر اس کے کتنے گہرے سائے منڈلائیں گے۔
سوامی ادتیا ناتھ، ہندوستان میں اپنی فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہندو مسلمانوں میں کشیدگی پھیلانے میں مشہور ہیں۔ ہندوستان میں اور کوئی سوامی، مسلمانوں کا اتنا بڑا دشمن نہیں جتنے کہ سوامی ادتیا ناتھ ہیں، سوامی بننے سے پہلے اجے سنگھ بشت تھے، ان کے چیلے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ سوامی جی سائنس میں گریجویٹ ہیں اور ۱۹۹۸ میں ۲۶ سال کی عمر میں گورکھ پور سے لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے تھے اور برابر پانچ بار اپنی مقبولیت کی بنیاد پر لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ ان کی مقبولیت اور اثر کی اصل بنیاد گورکھ پور کا سب سے بڑا مالدار ناتھ مندر ہے، جس کے سوامی جی، مہنت ہیں۔ ان کے اثر کی ایک وجہ ان کی تنظیم ہندو یووا واہنی ہے جو ہندو تشدد پسند تنظیم بجرنگ دل کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے۔ سوامی ادتیا ناتھ، ایودھیا میں بابری مسجد کی مسماری میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے ۲۰۰۵ میں بڑے پیمانہ پرجبراً عیسائیوں کا مذہب تبدیل کر کے انہیں ہندو بنانے کے مہم شروع کی تھی۔ اس مہم کے دوران ۸۰۰ ۱ عیسائیوں کو ہندو بنایا گیا تھا۔ مسلمانوں کو بھی ہندو بنانے کی مہم سوامی جی نے گھر واپسی کے نام پر شروع کی تھی۔ اسی دوران انہوں نے مسلمانوں کے خلاف سخت اشتعال انگیز تقریریں کی تھیں، اور رام زادہ اور حرام زادہ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ فروری ۱۹۹۹ میں مہاراج گنج کے گاؤں پنج رخیا میں انہوں نے مسلمانوں کے قبرستان پر قبضہ کر کے وہاں پیپل کے درخت لگا دیے تھے جس کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان سخت کشیدگی پھیل گئی تھی۔
۲۰۰۷ میں ریاستی انتخابات سے پہلے سوامی ادتیا ناتھ کی اشتعال انگیز تقریروں سے گورکھپور میں مسلمانوں کے خلاف فسادات بھڑک اُٹھے تھے، جس میں ایک مسلم نوجوان ہلاک ہوگیا تھا اور اسی الزام میں انہیں گرفتار کر کے پندرہ روز کے لیے قید کر دیا گیا تھا۔ سوامی کی اشتعال انگیز تقریروں کی وجہ سے ۲۰۰۹ میں بھی گورکھ پور میں مسلمانوں کے خلاف فسادات کی آگ بھڑک اُٹھی تھی جس کے دوران کئی مساجد کو نذ آتش کر دیا گیا تھا۔
۲۰۱۵ میں سوامی جی کو کیا سوجھی کہ انہوں نے کہا مسلمانوں کو یوگا کرنا چاہیے اور سوریہ نمسکار کہنا چاہیے۔ جب مسلمانوں نے کہا کہ وہ کسی صورت میں یہ بات تسلیم نہیں کریں گے تو سوامی جی نے کہا کہ جو لوگ سوریہ نمسکار کہنے سے انکار کریں انہیں ہندوستان سے چلے جانا چاہیے۔ سوامی جی نے سوریہ نمسکار کہنے سے انکار کرنے والوں کو سمندر میں غرق کرنے اور انہیں عمر بھر ایک تاریک کمرے میں بند کرنے کی سزا تجویز کی۔ ۲۰۱۶ میں پٹھان کوٹ میں ہندوستان کی فضایہ کے اڈہ پر حملہ کا الزام سوامی ادتیا ناتھ نے پاکستان پر لگایا اور اس کے جواب میں پاکستان پر حملے کامطالبہ کیا۔ سوامی جی نے کہا پٹھان کوٹ پر حملے نے پھر ایک بار یہ ثابت کر دیا ہے کہ شیطان کو تو تبدیل کیا جا سکتا ہے اور راہ راست پر لایا جا سکتا ہے پاکستان کو نہیں۔ گزشتہ جنوری میں جب امریکا کے نئے صدر ٹرمپ نے مسلمانوں کے امریکا میں داخلہ پر پابندی کی پالیسی کا اعلان کیا تو سوامی ادتیا ناتھ نے ٹرمپ کی بڑی تعریف کی اور ان کو شاباشی دی۔
پچھلے دنوں میڈیا پر بحث کے دوران۔ سوامی جی فلم اسٹار شاہ رخ خان پر برس پڑے اور کہا کہ شاہ رخ خان اور پاکستان کے حافظ سعید میں کوئی فرق نہیں، جو ان کے خیال میں دہشت گرد ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شاہ رخ خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ انہیں ہندو اکثریت نے فلم اسٹار بنایا ہے، اگر اس اکثریت نے ان کی فلموں کا بائیکاٹ کردیا تو وہ سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔
سوامی ادتیا ناتھ کو مودی کا ہم زاد، محض ہندوتوا اور ان کی ہندو قوم پرستی کی بنیاد ہی پر نہیں بلکہ مودی کے زمانہ میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور مشرقی یوپی میں، سوامی ادتیا ناتھ کی مسلم دشمنی کی بنیاد پر فسادات، دونوں میں قدر مشترک ہے۔ اتر پردیش کے حالیہ انتخابات کے بعد سوامی جی کی اشتعال انگیزی کی وجہ بریلی کی سڑکوں اور گلیوں میں ایسے پوسٹر چسپاں کیے گئے ہیں جن میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ہندوستان چھوڑ دیں۔ ادھر بلند شہر میں سوامی جی کے حامیوں نے ایک مسجد پر بھارتیہ جنتا پارٹی کا پرچم لہرانے کی کوشش کی ہے۔
بہت سے مبصرین کو اس بات پر تعجب ہوا ہے کہ نریندر مودی نے یہ جانتے ہوئے کہ سوامی ادتیا ناتھ نے کئی بار بھارتیہ جنتا پارٹی سے بغاوت کی ہے، آخر انہیں اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ کیوں مقرر کیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مودی نے بہت سوچ سمجھ کر یہ جوا کھیلا ہے۔ انہیں اعتماد ہے کہ سوامی ادتیا ناتھ کے انتخاب سے ہندو اکثریت خاص طور پر ہندوتوا کے حامی بہت خوش ہوں گے اور دو سال بعد عام انتخابات میں فتح کی راہ ہموار ہوگی۔ پھر مودی نے اتر پردیش میں برہمنوں، ٹھاکروں اور دلتوں سب کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سوامی جی ٹھاکر ہیں، ان کے ساتھ دو نائب وزیر اعلیٰ بھی مقرر کیے ہیں۔ ایک دنیش شرما ہیں جو برہمن ہیں اور دوسرے، کیشو موریا ہیں جو پس ماندہ ذات دلت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یوں مودی نے ان تمام غیر مسلموں کو متحد کردیا ہے اور در اصل مسلمانوں کے خلاف ایک مضبوط محاذ قائم کردیا ہے۔
جو لوگ اتر پردیش کی تاریخ سے واقف ہیں انہیں لامحالہ سوامی جی کے انتخاب پر اس لحاظ سے حیرت ہوئی ہے کہ کہاں ایک زمانہ میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ، نواب محمد احمد سعید خان چھتاری، گووند بلب پنت، سوچیتا کرپلانی، سمپورن آنند اور کملا پتی ترپاٹھی ایسی شخصیات رہی ہیں وہاں اب ان کے جانشین سوامی جی ایسے کٹر ہندو فرقہ پرست اور آر ایس ایس کے پرچارک بنے ہیں۔