فاروق ستار اور شرجیل میمن کی گرفتاری اور رہائی

219

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کو 17مارچ کو پولیس نے گرفتار کیا اور پھر ایک گھٹنے بعد چھوڑ دیا۔ 18 اور 19مارچ کی درمیانی شب سندھ کے سابق وزیر بلدیات اور پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما شرجیل میمن کو نیب نے اسلام آباد ائرپورٹ پر حراست میں لیا لیکن دو گھنٹے بعد انہیں بھی چھوڑ دیا گیا۔
’’پروفیسر صاحب سیاست یہ ہے، یہ کتابوں میں نہیں پڑھائی جاتی نہ ہی اس کا اسلام اور معاشرے کی بہتری سے تعلق ہے،اور یہ جو جماعت اسلامی کرتی ہے، یہ بھی سیاست نہیں ہے، اس طرح کی سیاست جماعت کے بس کی بھی بات نہیں ہے۔ یہ فن کاری صرف ’’سیاسی لوگ‘‘ کرسکتے ہیں، جماعت عبادت کررہی اور جہاد کر رہی ہے، کرتے رہے، مگر یہ امید مت رکھنا کہ ہماری قوم جماعت کو کبھی منتخب کرکے قومی اور صوبائی اسمبلی میں بھیج دے گی‘‘۔ وہ ایک عام سا نوجوان تھا بال بکھرے ہوئے ہاتھ میں چند کتابیں لیے نہ جانے کب سے ہوٹل میں بیٹھے چہرے سے قابل اور پڑھے لکھے دو افراد کی گفتگو سن رہا تھا۔ اچانک ہی ڈاکٹر فاروق ستار اور شرجیل میمن کے ذکر پر چائے کا کپ ہاتھوں میں لیے ان سے مخاطب ہوگیا۔ لہجے میں ایسی تیزی کھرا پن اور سچائی جھلک رہی تھی کہ ہوٹل کی میزوں پر آس پاس موجود افراد بھی اس کی جانب متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ وہ بولے جارہا تھا، محترم آپ دونوں چہرے سے پروفیسر یا لیکچرار لگتے ہیں۔ مجھ جاہل کی بات سے شاید آپ دونوں اتفاق نہ کریں، لیکن دیکھیں یہاں موجود اکثر لوگ میری باتوں میں دلچسپی لے رہے ہیں، اس لیے کہ میں ان کے دلوں کی آواز میں بول رہا ہوں‘‘۔ دونوں اساتذہ نے نوجوان کی بات غور سے سنی اور یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے ’’بات تو سچ ہے آپ کی، مگر اصلاح معاشرہ کے لیے کردار ادا کرنا بھی ضروری ہے‘‘۔
میں بھی اپنے ایک دوست کے ساتھ یہ منظر دیکھ کر چند لمحوں کے لیے خیالات میں گم ہوگیا۔ ہم دونوں بھی اس بات سے آگے نہ بڑھ سکے کہ یہ ’’سیاست ہے یا ڈرامے بازی‘‘؟ یہ قانونی کارروائی ہے یا قانون کا مذاق اڑانے کا چکر؟
ڈاکٹر فاروق ستار کی پولیس کے ہاتھوں اچانک گرفتاری اور پھر رہائی پر مجھے حیرت بھی نہیں ہوئی۔ سچ تو یہ ہے کہ فاروق ستار کی گرفتاری کی اطلاع کے ساتھ ہی میں نے خود کلام کی کہ ’’کیا پھر سیاست اور کرپشن کے چمپئن اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے لگے؟‘‘ (میرا دماغ جس شخص کی جانب چل رہا تھا اس کے بارے میں لفظ ’’چمپیئن‘‘ ہی سے قارئین سمجھ جائیں گے کہ کس کی بات کررہا ہوں)۔ ڈاکٹر فاروق ستار ایک بڑے حلقے میں اپنے اخلاق کے وجہ سے نفیس سیاست دان کی حیثیت سے مقبول ہیں۔ یقین ہے کہ جو کچھ ان کے ساتھ 17مارچ کی شب پولیس نے کیا یہ ان کے لیے بھی ایک ’’سرپرائز‘‘ ہی ہوگا۔ مگر حیرت ہے کہ انہوں نے اپنی رہائی کے فوری بعد کی گئی پریس کانفرنس میں وہ حالات اور پولیس کے ساتھ ہونے والی گفتگو بتانے سے گریز کیا جو ان کے زیر حراست رہنے کے دوران کی گئی۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کا ڈاکٹرفاروق ستار کی گرفتاری پریہ کہنا کہ ’’ڈاکٹر فاروق ستار کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا، ممکن ہے کہ پولیس نے فاروق ستار کو عدالت میں حاضری کے لیے روکا ہو، ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ موجود ہیں‘‘۔ بہت ہی مضحکہ خیز ہے۔ وزیراعلیٰ کی یہ بات اگر درست مان لی جائے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فاروق کو ایک گھنٹے بعد ہی کیوں چھوڑ دیا گیا تھا؟ ڈاکٹر فاروق ستار کی گرفتاری اور پھر رہائی اور وجہ بھی نہیں بتائی خود ہی بڑے سوالات ہیں۔ کوئی اور ملک ہوتا تو یہ صورت حال کلیئر ہوجاتی۔ بغیر کسی وجہ کے گرفتاری پر متعلقہ پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی، اور وجہ کے تحت گرفتاری ہوئی تھی تو انہیں رہا کرنے پر بھی پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی جاتی۔ لیکن اپنے ملک میں جمہوریت ہو اور بے تکی سیاست ہو تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ 17 ستمبر 2016 کو ایم کیو ایم کے ترجمان اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن کو اچانک گرفتار کرکے رہا کرنے کا واقعہ ونما ہوچکا ہے۔ لیکن اس حادثے سے بڑا حادثہ یہ بھی ہوچکا ہے کہ ’’خواجہ اظہار کو گرفتار کرنے والے پولیس افسر راؤ انوار کو معطل کرنے کے بعد دوبارہ نہ صرف بحال کیا گیا بلکہ انہیں اسی عہدے پر تعینات بھی کردیا گیا جس سے انہیں معطل کیا گیا تھا۔
فاروق ستار کی گرفتار کے پیچھے کیا عوامل تھے اس بارے میں ڈاکٹر فاروق ستار کی خاموشی اور حکومت کی جانب سے آئیں بائیں شائیں نے لوگوں کو یہ سمجھنے اور سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ کچھ تو ’’مشترکہ مفادات‘‘ تھے جس کی ’’پردہ پوشی‘‘ کی گئی ہے۔
اب اس بات کو بھی اتفاق ہی سمجھ لیں کہ سندھ کے سابق صوبائی وزیرشرجیل میمن دو سال بعد جب وطن واپس لوٹے تو اسلام آباد ائر پورٹ پر ہی انہیں نیب حکام گرفتار کرتے ہیں اور صرف دو گھنٹے بعد ہی رہا کردیتے ہیں۔ اب بھلا کون نیب سے پوچھے گا کہ ’’آپ نے شرجیل میمن کو کیوں گرفتار کیا اور گرفتاری کے بعد کیوں رہا کردیا گیا؟‘‘۔ شرجیل میمن نیب کے مقدمے میں ملوث تھے مگر ضمانت قبل ازگرفتاری حاصل کرکے دبئی سے پاکستان آئے تھے۔ ڈاکٹر فاروق ستار 22اگست کو اپنے سابق قائد کی جانب سے کی گئی ملک کے خلاف تقریر کے حوالے درج مقدمے میں ملوث ہیں۔ عدالت کی جانب سے دونوں کی گرفتاری کے حوالے سے قانونی دباؤ بھی تھا۔ اس لحاظ سے ڈاکٹرفاروق ستار کی گرفتاری تو سمجھ میں آتی ہے لیکن گرفتاری کے بعد رہائی کیوں کی گئی یہ بات اب تک پتا نہیں چل سکی۔ اسی طرح نیب کی طرف سے شرجیل میمن کو کیوں گرفتارکیا گیا جب کہ انہوں نے ضمانت قبل از گرفتاری منظور کروالی تھی۔ کیا واقعی ہمارے ادارے عدالتوں سے ضمانت حاصل کرلینے والے ملزمان سے بے خبر ہوتے ہیں؟
یہ گرفتاریاں اور رہائیاں اپنی جگہ مگر کرپٹ عناصر کے خلاف جامع کارروائی جس کے تحت وہ اپنے انجام کو پہنچیں، اس کے امکانات کم نظر آرہے ہیں۔ سزاؤں سے قبل اب کوئی بھی اپنے آپ کو قصور وار ماننے کوتیار نہیں ہے جب کہ سزا ملنے کے بجائے بری ہونے کا تناسب بڑھتا جارہا ہے۔ اسی طرح جیسے ملک میں کرپشن میں روز بروز اضافہ ہوتا ہے۔ کرپشن اور جرائم کے الزامات پر مقدمات میں سزائیں نہ ہونے کی بہت سی وجوہ میں بڑی وجہ گواہوں کی عدم موجودگی بھی شامل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ گواہوں کی عدم موجودگی کی وجوہ کو کون ختم کرے گا، کوئی ختم کربھی سکے گا یا نہیں؟ سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا۔ کرپٹ عناصر جو پورے نظام پر حاوی ہوجاتے ہیں، ان کے لیے گواہوں کا اپنا حامی بنانا تو کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مگر حکومت اس مشکل کو ناممکن بناسکتی ہے اگر چاہے تو۔۔۔ انتظار ہے کہ کبھی تو وہ دن بھی آجائیں گے۔