انقلابات یا ماضی کے مزار؟

199

انقلابات کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی تنقید انقلاب کے دوران یا ان کے فوراً بعد پیدا نہیں ہوتی بلکہ ان کی تنقید اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انقلابات ناکام ہو کر ماضی کی یادگار بن چکے ہوتے ہیں۔ انقلابات کی تنقید اگر انقلابات کے دوران یا ان کے فوراً بعد پیدا ہوتی تو انقلابات کی عمر طویل ہو سکتی تھی۔
روس کا سوشلسٹ انقلاب انسانی تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ایک تھا۔ لینن سے پہلے سوشلزم صرف ایک نعرہ یا صرف ایک خواب تھا لیکن لینن نے نعرے کو حقیقت بنادی اور خواب کو تعبیر مہیا کردی۔ لیکن لینن کا انقلاب بہت مہنگا تھا۔ یہ انقلاب 80 لاکھ لوگوں کو کھا گیا۔ صرف یہی نہیں آزادی کا نعرہ بلند کرنے والے انقلابیوں نے معاشرے پر ایسا جبر مسلط کیا کہ اختلاف رائے کو سازش سمجھا جانے لگا۔ گورکی روس کے بڑے ادیبوں میں سے ایک تھا اور اس نے سوشلسٹ انقلاب میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ لیکن لینن گورکی کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھتا تھا۔ ایک موقع پر لینن نے کہا کہ گورکی دشمنوں کی زبان بول رہا ہے اور انقلاب کے بعد جب انسانیت اپنی فتح کا جشن منائے گی تو مجھے نہیں معلوم کہ وہ گورکی کو کن الفاظ میں یاد کرے گی۔ اس کے جواب میں گورکی نے کہا کہ اگر انسانیت کی فتح کا جشن منانے والے انسان ہی ہوں گے تو یقین ہے کہ وہ میرا ذکر عزت کے ساتھ کریں گے اور اگر انسانیت کی فتح کا جشن منانے والے انسان ہی نہیں ہوں گے تو مجھے اس بات کی فکر نہیں کہ وہ میرا ذکر کن الفاظ میں کریں گے۔ ٹرائے ٹسکی روس کا ممتاز دانش ور تھا۔ اسے بھی لینن سے اختلاف تھا چناں چہ لینن ٹرائے ٹسکی کو بھی ناپسند کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ٹرائے ٹسکی کو روس چھوڑنا پڑا۔ لیکن روس کی خفیہ ایجنسی کے جے بی ٹرائے ٹسکی کے تعاقب میں رہی اور بالآخر ٹرائے ٹسکی کی موت نہایت پُراسرار حالات میں ہوئی۔ سولی زلے نتسن بھی انقلابیوں سے اختلاف رکھتا تھا چناں چہ بڑے ادیب ہونا سولی زلے نتسن کے بھی کام نہ آیا اسے بھی جلاوطنی کی زندگی اختیار کرنی پڑی۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کے سو سال بعد آج روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کہہ رہے ہیں کہ لینن نے روس کی بنیادوں میں ایٹم بم رکھ دیا تھا اور یہ ایٹم بم پھٹ کر رہا۔ لینن انقلاب برپا کررہا تھا تو وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے انقلاب کی عمر صرف 70 سال ہوگی اور انقلاب کے سو سال بعد خود روس کا سربراہ جو کے جی بی کا ایجنٹ رہ چکا ہے خود یہ کہے گا کہ سوشلسٹ انقلاب کا سب سے بڑا دشمن خود سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والا تھا۔ بقول شاعر؂
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ صدر پیوٹن کی اس بات کا مفہوم کیا ہے کہ لینن نے روس کی بنیادوں میں خود ایک ایٹم بم رکھ دیا تھا؟ تجزیہ کیا جائے تو اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ ریاستی جبر سوشلزم کا داخلی تقاضا نہ تھا اور لینن نے سوشلزم کے سلسلے میں ریاستی جبر ایجاد کرکے مارکسزم سے غداری کی اور روس کے جسم میں ایک ایسا جرثومہ داخل کردیا جو بالآخر ایک بڑی بیماری میں تبدیل ہو کر روس کیا سوشلزم ہی کو لے ڈوبا۔ لیکن یہ رائے ایک حد تک ہی درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روس کا انقلاب صرف خارجی طاقت کے بل پر برپا ہوا تھا اور طاقت جبر کے سوا انسان کو کچھ سکھاتی ہی نہیں۔ مطلب یہ کہ لینن نے جو کچھ کہا وہ صرف اس کے ذہن کی اختراع نہیں تھی، سوشلزم کے نظریے اور اس کی بنیاد پر برپا ہونے والی مسلح جدوجہد کا ’’تقاضا‘‘ بھی یہی تھا۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ انقلاب کی تنقید سے گریزاں و ہراساں لینن صرف سو سال میں اپنے ہی ملک میں اجنبی ہو گیا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ روس میں لینن کو پسند کرنے والا کوئی شخص موجود نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ روس میں لینن کو پسند کرنے والے موجود ہیں مگر ایک تو ان کی تعداد بہت نہیں ہے دوسرے یہ کہ ان لوگوں کے لیے بھی لینن ان کے ماضی کی ایک یاد ہے، یا شاید ماضی کا مزار۔
روس کی طرح چین بھی سوشلسٹ انقلاب کے تجربے سے دوچار ہوا۔ چین کی آبادی روس سے زیادہ تھی۔ اسی لیے اگر روس میں انقلاب نے 80 لاکھ لوگوں کی قربانی طلب کی تھی۔ چین میں چار کروڑ افراد انقلابی جدوجہد میں ہلاک ہوئے۔ روس کا بانی لینن تھا اور جدید چین کا بانی ماؤزے تنگ۔ لینن اور ماؤ میں قدر مشترک ریاستی جبر تھا۔ جس طرح سوشلسٹ روس میں لینن کو پوجا گیا اسی طرح چین میں ماؤ کی پوجا کی گئی۔ ماؤ کی red book۔ ماؤ کی ٹوپی، ماؤ کا لباس غرضیکہ ماؤ کی ہر چیز کو محبت و عقیدت سے دیکھا گیا۔ لیکن 1980ء تک آتے آتے چین میں جدید تر چین کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ چین کے نئے رہنما ڈینگ زیاؤ پنگ یہ بات سمجھ چکے تھے کہ ماؤ ازم اپنی طبعی عمر پوری کرچکا ہے اور اب وہ چین کو مزید کچھ نہیں دے سکتا۔ چناں چہ انہوں نے سوشلزم کی دشمن جاں سرمایہ داری کو سینے سے لگا لیا تاہم ڈینگ زیاؤ پنگ نے چین کے سیاسی نظام کو کمیونسٹ پارٹی کی گرفت سے آزاد نہ ہونے دیا۔ ایسا ہوتا تو چین اب تک ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہوتا۔ مغربی طاقتوں نے ایک مرحلے پر تیان من اسکوائر میں کئی لاکھ لوگوں کو جمع کرکے چین کو ’’مشرف بہ جمہوریت‘‘ کرنے کی کوشش کی مگر جدید تر چین نے لاکھوں لوگوں پہ ٹینک چڑھا دیے۔ چناں چہ چین کے سیاسی نظام کے خلاف بغاوت ناکام ہوگئی۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جدید چین میں ماؤ ازم کی حیثیت اب ماضی کے مزار سے زیادہ نہیں۔
ہندوستان میں گاندھی اگرچہ کوئی انقلابی رہنما نہیں تھے لیکن گاندھی کا اپنا فلسفہ تھا۔ جسے گاندھی واد یا گاندھی ازم کہا جاتا ہے۔ گاندھی واد کے دو اصول تھے۔ عدم تشدد اور مقامی مصنوعات۔ یہ اپنی اصل میں سادگی کا اصول تھا اور گاندھی سادگی کو ہندوستان کی روح سمجھتے تھے۔ لیکن گاندھی کے دونوں اصول بھی دیکھتے ہی دیکھتے دریا برد ہوگئے۔ گاندھی کے عدم تشدد کا فلسفہ قیام پاکستان کے بعد ہولناک مسلم کش فسادات میں جل کر راکھ ہوگیا۔ یہاں تک کہ ایک ہندو انتہا پسند نتھو رام گوڈسے نے خود گاندھی کو قتل کرکے بتادیا کہ جدید ہندوستان کی بنیاد عدم تشدد پر نہیں تشدد پر رکھی گئی ہے۔ ہندوستان کی بعد کی تاریخ نے اس حقیقت کو مزید آشکار کیا۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں 1947ء سے اب تک 16 ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی کے گلی کوچوں میں دن دہاڑے دو ہزار سے زیادہ سکھوں کو قتل کردیا گیا۔ بھارت میں عیسائیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملہ معمول کی بات ہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندو ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ شودر اور دلت خواتین کی عصمتیں تار تار کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہندو گاندھی کو باپو یعنی باپ اور مہاتما یا عظیم روح کہا کرتے تھے لیکن جدید تر ہندوستان پر باپو یا مہاتما کا کوئی اثر نہیں۔ بھارت بی جے پی کے نرغے میں ہے جو گاندھی کو قتل کرنے والے نتھو رام گوڈسے کو ’’ہیرو‘‘ یا کم از کم محب وطن سمجھتی ہے۔
ایران کا انقلاب عصری تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا۔ اگرچہ ایران شیعہ اکثریت کا ملک تھا لیکن سنی اکثریت کے مسلکوں میں ایران کے انقلاب کو شیعہ انقلاب کے بجائے اسلامی انقلاب کے طور پر لیا گیا۔ مغربی دنیا نے بھی اسے اسلامی انقلاب کہا۔ لیکن ہم چند سال پیش تر تہران گئے تو مقامی نوجوانوں سے رابطہ ہوا۔ یہ نوجوان ابتدا میں غیر ملکیوں سے گفتگو کرنے سے گریزاں تھے لیکن چند روز کی شناسائی نے ان کا اعتماد بحال کیا۔ ان نوجوانوں نے ہمیں افسوس کے ساتھ بتایا کہ ایران کی نئی نسل پر انقلاب کا کوئی اثر نہیں ہے۔ بالخصوص شہروں میں نئی نسل مغربی رجحانات کو قبول کررہی ہے۔ البتہ دیہی علاقوں میں انقلاب کا تھوڑا بہت اثر باقی ہے۔ بدقسمتی سے مغربیت کی طلب نئی نسل تک محدود نہ رہی اور ایران دیکھتے ہی دیکھتے امریکا اور مغربی دنیا کا اتحادی بن کر اُبھرا۔
بقیہ صفحہ9نمبر1
انقلابات یا ماضی کے مزار؟
ایران امریکا کا اتحادی نہ ہوتا تو امریکا عراق کے خلاف جارحیت کرتے ہوئے دس بار سوچتا۔ ایران کے بانی خمینی صاحب امریکا کو ’’شیطان بزرگ‘‘ کہا کرتے تھے۔ لیکن آج ایران شام میں مسلم دنیا کا شیطان بزرگ بن کر اُبھرا ہے۔ شام کا صدر بشار الاسد ابلیس صفت ہے۔ وہ چند برسوں میں اپنے پانچ لاکھ شہریوں کو قتل کرچکا ہے، پانچ چھ لاکھ شامی باشندے شام سے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں، لاکھوں شامی اندرون ملک بے گھری کی اذیت جھیل رہے ہیں۔ 60 فی صد سے زیادہ شام ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایران بشارالاسد کا اتحادی اور اس کا پشت پناہ بنا کھڑا ہے۔ بلکہ اب تک ایران کے دو ہزار فوجی شام میں بشار کے لیے لڑتے ہوئے مارے جاچکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بشار کا تعلق ان علویوں سے ہے جو غلط یا صحیح خود کو اہل تشیع کا ایک فرقہ کہتے ہیں۔ اس صورت حال نے ایران کے انقلاب کو بھی ماضی کا ایک مزار بنادیا ہے۔