اسٹیٹ بینک کا شرح سود 5.75 فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ

129

اسٹیٹ بینک نے آ ئندہ دو ماہ کے لئے شرح سود(پالیسی ریٹ) 5.75 فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ہفتہ کو اسٹیٹ بنک کی جانب سے جاری کئے گئے ( مانیٹری )پالیسی بیان کے مطا بق رواں مالی کے دوران سال مہنگائی کی توقعات بدستور محدود رہی ہیں۔ اس کا سبب بڑی حد تک یہ ہے کہ رسدی پہلو کوئی بڑا دباؤ تقریباً غیر موجود تھا۔ تاہم مالی سال 14ء سے پست شرحِ سود کے حالات میں بڑھتی ہوئی حقیقی آمدنی ملکی طلب میں اضافے کی علامت ہے جس کا وسیع پیمانے پر اظہار قوزی گرانی کے پیمانوں سے بھی ہوتا ہے۔

مستقبل میں صارفین کا بڑھتا ہوا اعتماد، جیسا کہ مارچ 2017ء کے آئی بی اے 150 ایس بی پی اعتمادِ صارف سروے سے ظاہر ہے، اس بات کی علامت ہے کہ صارف کی طلب مزید بڑھے گی۔ تاہم لاگت کے حوالے سے کسی بڑے دھچکے سے قطع نظر ، مالی سال 18ء میں عمومی مہنگائی کے بنیادی رجحان کی وضاحت ملکی طلب سے ہوگی۔حقیقی اقتصادی سرگرمیوں کی رفتار بدستور بڑھ رہی جسے بہتر زرعی پیداوار، بڑے پیمانے کی اشیا سازی کے اہم شعبوں میں نمو، اور نجی شعبے کو قرضے میں عمدہ اضافے سے سہارا ملا۔ اس توسیع کو کئی عوامل سے مدد ملی جن میں خام مال کی پست لاگت، مثبت اقتصادی احساسات، توانائی کی بہتر رسد، اور سی پیک سے متعلق سرمایہ کاری شامل ہیں۔

 اس کے نتیجے میں مالی سال 17ء میں جی ڈی پی کی نمو مزید بہتر ہونے کی توقع ہے۔ نیز، محتاط زری پالیسی موقف کا نتیجہ مارکیٹ میں کم اور مستحکم شرح سود کی صورت میں عمدگی سے نکلا ہے، جس سے نجی شعبے کو اپنے کاروبار کی مالکاری اور سرمایہ کاری سرگرمیوں کے لیے کمرشل بینکوں سے قرضہ لینے کی ترغیب ملی۔ اس طرح نجی شعبے کا قرضہ جولائی تا فروری مالی سال 17ء کے دوران 349 ارب روپے بڑھ گیا جو گذشتہ سال اسی عرصہ میں 267 ارب روپے بڑھا تھا۔

 یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ نجی شعبے کے کاروباری قرضوں میں معینہ سرمایہ کاری سب سے آگے رہی جس میں اس عرصے کے دوران 159 ارب روپے کا اضافہ ہوا جو گذشتہ سال اسی عرصے میں 102 ارب روپے ہوا تھا۔ اسی طرح رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں صارفی مالکاری میں نمو کا رجحان برقرار رہا۔ بین البینک سیالیت کی بہتر صورتحال نے بھی نجی شعبے کے قرضے میں نمو کو مہمیز دی۔ اس کا سبب دو عوامل تھے ۔کمرشل بینکوں کو حکومت کی طرف سے قرضے کی خالص ادائیگیاں اور بینکوں کے ڈپازٹس میں معقول اضافہ، جبکہ اس کے مقابلے میں گذشتہ برس رقوم نکلوائی گئی تھیں۔ مزید برآں، بازارِ زر کے سوچے سمجھے سودوں کے باعث بین البینک سیالیت کا انتظام اچھا رہا، جس نے بہ وزن اوسط شبینہ ریپو ریٹ کو پالیسی ریٹ کے قریب رکھا۔

معاشی سرگرمیوں میں توسیع سے درآمدات میں بھی بھرپور اضافہ ہوا، اس کے ساتھ برآمدات میں مستحکم اضافہ نہ ہونے اور ترسیلاتِ زر میں معمولی کمی کی وجہ سے مالی سال 17ء میں جولائی تا فروری کے دوران جاری کھاتے کا خسارہ 5.5 ارب ڈالر ہوگیا۔ اگرچہ خالص مالی رقوم کا حجم بلند رہا لیکن یہ جاری کھاتے کا خسارہ پورا کرنے کے لیے ناکافی تھیں۔

 تاہم، برآمدات میں اضافے کے لیے حالیہ پالیسی اقدامات کے مثبت اثر اور غیر ضروری درآمدات کی روک تھام کو دیکھتے ہوئے آئندہ مہینوں میں جاری کھاتے کے خسارے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مالی رقوم کی آمد کے تسلسل، سی پیک سے متعلق درآمدات، اور تیل کے عالمی نرخ میں کوئی بڑا اتار چڑھاؤ مالی سال 18ء میں بیرونی شعبے کی مجموعی صورتحال کو متعین کرے گا۔ان عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے، اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ 5.75 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔