الطاف ،ملک دشمن عناصر اورکتے کی دم

200

متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین اپنی 39سالہ انتہائی جذباتی، پرتشدد، اور مہاجر سمیت تمام قوموں کے ساتھ ملک مخالف سیاست میں بری طرح ناکامی کے باوجود تاحال اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقعے پر اپنے خصوصی آڈیو پیغام میں ایک بار پھر پاکستان کے خلاف اپنی ناپاک زبان استعمال کرتے ہوئے بھارت سے مدد مانگ لی۔ اپنے بیان میں بانی ایم کیو ایم نے کراچی کے عوام کو پناہ گزین قراردے دیا، اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی ہے کہ وہ مہاجروں کے حق میں آواز اٹھائیں۔ ایم کیو ایم پاکستان نے الطاف کے بیان کی مذمت کی۔ رابطہ کمیٹی نے بانی ایم کیو ایم کے اس بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ملک دشمن عناصرکی سازشوں اور مہاجر عوام کی حب الوطنی کیخلاف سازشوں کو ہر سطح پر ناکام بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مہاجروں کے آباؤ اجداد نے پاکستان کے حصول کے لیے ہراول دستے کا کردارادا کیا، مہاجروں کی اولادوں کے دل بھی وطن عزیز کے لیے دھڑکتے ہیں۔ الطاف حسین کی طرز سیاست سے تنگ آکر ان سے علیحدہ ہوکر پاک سرزمین پارٹی قائم کرنے والے انیس ایڈووکیٹ اور رضا ہارون نے بھی الطاف کے بیان پر اپنے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بانی ایم کیو ایم پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں، وہ ملک دشمن اور غدار شخص ہے۔ ان رہنماؤں نے کہا کہ بانی ایم کیو ایم نے اس بیان سے اپنا ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہونا ثابت کردیا ہے، انیس ایڈووکیٹ نے مطالبہ کیا کہ بانی ایم کیو ایم کی پاکستانی شہریت منسوخ ہونی چاہیے۔
الطاف حسین کی تقریر وتصویر پر ملک میں پابندی عائد ہے۔ مگر وہ اپنے ویڈیو پیغام کے ذریعے ملک دشمن ایجنڈے سے پیچھے ہٹتے دکھائی نہیں دے رہے بلکہ ’’کتے کی دم ٹیڑھی کی ٹیڑھی‘‘ کے مترادف بنے ہوئے ہیں۔ 22اگست کو کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے اشتعال انگیز اور ملک دشمن تقریر کے بعد الطاف کی سیاست ملک میں عملاً ختم ہوچکی ہے۔ وہ جس پارٹی کے قائد تھے، اب وہ پارٹی پوری کی پوری، قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار کی سربراہی میں سرگرم ہے۔ اس پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ 23اگست کے اعلان کے مطابق اب ایم کیو ایم پاکستان کا الطاف حسین اور لندن میں بیٹھے ان کے ساتھیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گوکہ الطاف کی ایم کیو ایم، ایم کیو ایم لندن کہلاتی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ چوں کہ ایم کیو ایم لندن الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہے۔ اس لیے اسے یہاں سیاست کا حق بھی نہیں ہے۔ سیاست کا حق الطاف حسین کو حاصل ہو یا نہ ہو، مگر وہ وقتاً فوقتاً اپنی ویڈیو اور آڈیو تقاریر سے یہ بات باور کرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ابھی وہ زندہ ہیں اور اب بھی مہاجروں کے لیڈر ہیں۔ حالاں کہ وہ خو د کئی سال قبل لفظ مہاجر کو متحدہ میں تبدیل کرکے مہاجر قوم سے غداری کرچکے ہیں۔
عام تاثر یہی ہے کہ الطاف حسین کو کبھی بھی پاکستان اور مہاجروں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ وہ کبھی بھی ان سے مخلص نہیں رہے، وہ 11جون 1978جب انہوں نے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) اور 18مارچ 1984کو مہاجر قومی موومنٹ قائم کی تھی تب سے ہی مہاجروں کو اپنی جذباتی تقریر سے دھوکا دیتے رہے۔ اے پی ایم ایس او کے قیام کے چھ ماہ بعد یعنی 14اگست 1978کو ان کا مزار قائد پر ملک کا پرچم اتار کر نذر آتش کرنے کا عمل بھی اس بات کا اظہا ر تھا کہ وہ ملک کے خلاف تحریک شروع کرچکے ہیں۔ لیکن شاباش ہے ہماری حکومتوں اور حکومتی اداروں پر کہ اس کے باوجود ان سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کے بجائے ڈھیل دیکر سیاسی مصلحتوں سے کام لیا گیا۔ جس کے نتیجے میں کم ازکم 35سال (2013 ) تک ملک کے سب سے بڑے شہر کے لوگوں کو وہ نہ صرف بیوقوف بناتے رہے بلکہ سندھ کے شہروں میں ’’فلسفہ محبت‘‘ کے نام پر نفرتوں کی وہ آگ لگاتے رہے، جسے ختم کرنا تقریباً ناممکن ہوچکا تھا۔ فوج اور حکومت کی پالیسی نے ملک کے اندرکی جانے والی ملک دشمنی کی سیاست کو ختم کیا۔ جس کے نتیجے میں اب شہروں کی حالت بدل چکی ہے اب الطاف حسین کے خطاب کے ساتھ شہر بند نہیں ہوا کرتے اور نہ ہی روزانہ درجنوں افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوا کرتے ہیں۔
حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ 22اگست 2016 کی تقریر کے بعد ہی الطاف اور اس کے ساتھیوں پر پابندیاں عائد کرکے نوٹیفکیشن جاری کردیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ الطاف حسین سمیت ایسے تمام سیاسی عناصر جو دہری شہریت رکھ کر ملک کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہیں اور دشمن ملک بھارت کی حمایت کرتے ہیں، ان تمام کی پاکستانی شہریت فوری منسوخ کرکے ان کے ملک میں ہمیشہ کے لیے آنے پر پابندی لگا دینی چاہیے۔
برطانیہ تو ایسا ملک ہے جس نے نہ صرف الطاف حسن کو شہریت دی بلکہ انہیں پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف ’’خونیں سیاست‘‘ کا موقع بھی فراہم کیا۔ جس کے نتیجے میں اب برطانیہ اور اس کی مایہ ناز مانی جانے والی پولیس کی وہ ساکھ برقرار نہیں رہی جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ بھی کسی بڑے پروگرام پر عمل درآمد کررہا تھا۔ یقیناًیہ ایسا منصوبہ ہوگا جو کسی طور پر پاکستان اور مسلمانوں کے حق میں نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بدنامی کے باوجود برطانیہ ناپسندیدہ شخصیات کو اپنے ملک میں ہر وہ سہولت فراہم کررہا ہے جو وہاں کے پیدائشی یا بنیادی شہریوں کو دی جاتی ہے۔ الطاف حسین جیسے لیڈروں کو مخصوص طرز سیاست کے لیے موقع اور مراعات فراہم کرنے سے ایسا گمان ہوا ہے کہ ’’برطانیہ کو برصغیر کی تقسیم کے مقاصد حاصل نہ ہونے کا احساس ہونے کے بعد سے وہ پاکستان کو دوبارہ بکھیر نے کی ناپاک سازش میں لگا ہوا ہے‘‘۔ برطانیہ الطاف حسین کو اپنی خواہش کے مطابق موقع دیتا رہے یہ اس کی مرضی ہے، لیکن پاکستان اور پاکستانی عوام کو ایسے ملک دشمنوں کی ضرورت نہیں ہے، جو دوسروں کے اشارے پر مسلسل وہی کچھ کرتے رہیں جس سے انہیں بھی کوئی فائدہ نہ ہو اور ملک میں بھی افراتفری مچی رہے۔
الطاف حسین ہی نہیں پاکستان کی پارلیمنٹ میں موجود ایسے اراکین کے خلاف بھی اب سخت ترین کارروائی کا وقت آچکا ہے جو پاکستان میں رہ کر پاکستان کا کھاکر غیروں کی حمایت کرکے ذاتی فوائد حاصل کررہے ہیں۔