برطانیہ میں شدت پسندی کے اسباب کی پردہ پوشی

137

۲۲ مارچ کو لندن میں پارلیمنٹ پر چاقووں سے لیس ۵۲ سالہ نو مسلم خالد مسعود کا حملہ، پارلیمنٹ پر پہلا حملہ نہیں تھا۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ ۱۷ جون ۱۹۷۴ کو آئرش ریپبلکن آرمی (IRA) نے پارلیمنٹ پر بم کا زبردست حملہ کیا تھا جس کے بعد ویسٹ منسٹر ہال میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی۔ جانی نقصان زیادہ نہیں ہوا۔ گیارہ افراد سخت زخمی ہوئے تھے۔ لیکن ویسٹ منسٹر ہال کی تاریخی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ یہ نو سو بیس سال قدیم، یورپ کا سب سے بڑا ہال ہے جہاں برطانیہ کے فرماں رواؤں کی تاج پوشی ہوتی ہے۔ سن ستر کے عشرے میں لندن آئی آر اے کی دہشت گردی کی جس ہولناک لہر میں گھرا ہوا تھا اس کے مقابلے میں لندن میں موجودہ جہادی حملے، زیادہ مہلک قرار نہیں دیے جاسکتے۔ میں گزشتہ بدھ کو پارلیمنٹ پر حملے کو حق بجانب قرار نہیں دے رہا لیکن آج برطانیہ میں مسلم دہشت گردی کا جو واویلا مچا ہوا ہے اس میں بلا شبہ مبالغہ آمیزی کا عنصر نمایاں ہے۔ 9/11 کے بعد پچھلے سولہ برسوں میں برطانیہ میں صرف ۳ جہادی حملے ہوئے ہیں، جن میں ۵۷ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ۱۹۷۴ سے ۱۹۹۹ تک جب کہ آئی آر اے کے ساتھ حکومت میں شراکت کا سمجھوتا طے پایا، صرف لندن میں آئی آر اے نے ایک سو اٹھائیس حملے کیے تھے۔ جن میں پارلیمنٹ پر بم کے حملے کے علاوہ ایک مزائل کا حملہ تھا جس کا نشانہ دس ڈاوننگ اسٹریٹ تھا لیکن نشانہ خطا ہوا اور مزائل وزیر اعظم کی سرکاری قیام گاہ کے عقب میں لان پر گرا تھا۔ لندن اور انگلستان میں آئی آر اے کے حملوں میں ۱۲۵ افراد ہلاک ہوئے۔ شمالی آئرلینڈ میں آئی آر کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۳ ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ۱۹۷۴ میں برمنگھم کے ایک شراب خانے پر بم کے حملے میں اکیس افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ برائیٹن، میں ۱۹۸۴میں آئی آر اے نے ٹوری پارٹی کی کانفرنس کے دوران وزیر اعظم ماگریٹ تھیچر کو ہلاک کرنے کے لیے بم کا دھماکا کیا تھا، جس میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
آئی آر اے کے ان حملوں کے دوران کسی نے انہیں رومن کیتھولک یا عیسائی دہشت گردی کا نام نہیں دیا تھا۔ آخر کار ان حملوں اور اس بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے سامنے برطانوی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور شمالی آئر لینڈ میں سیاسی محرومی کے شکار رومن کیتھولک فرقے کے لوگوں کو اقتدار میں شراکت کا سمجھوتا طے کرنا پڑا جس کے بعد آئی آر اے کی دہشت گردی پر قابو پایا جا سکا۔
اس کے برعکس لندن میں جولائی ۲۰۰۵ میں زیر زمین ریلوے کے نظام پر جو حملہ ہوا تھا جس کا الزام لیڈز کے تین مسلم نوجوانوں پر الزام لگایا گیا تھا، جس میں یہ تینوں ہلاک ہوگئے تھے، برطانوی حکومت نے بالکل مختلف حکمت عملی اختیار کی۔ اس مسئلے سے نبٹنے کے لیے ایک کے بعد ایک اور سخت سے سخت تر چار قوانین منظور کیے گئے۔ برطانوی حکومت نے مسلم نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے اسباب دریافت کرنے کی قطعی کوشش نہیں کی۔ انسداد دہشت گردی کے قوانین کے ساتھ ۲۰۰۳ میں Prevent کے نام سے ایک عجیب و غریب حکمت عملی اختیار کی گئی۔ بنیادی مقصد اس حکمت عملی کا یہ تھا کہ اسکولوں اور کالجوں میں طلبہ پر جاسوسی کی جائے اور ان پر کڑی نگاہ رکھی جائے کہ ان میں شدت پسندی کے رجحانات تو نہیں پائے جاتے۔ اس مقصد کے لیے اسکولوں اور کالجوں کے منتظمین کو ہدایت کی گئی کہ انہیں جیسے ہی کسی بچے میں شدت پسندی کا شبہ ہو وہ اس کی اصلاح کے لیے پولیس یا مقامی حکام کو اطلاع دیں۔ بچوں پر جاسوسی کا عالم یہ رہا کہ ۲۰۱۵ میں Prevent کے تحت ۳۹۵۵ بچوں کو شدت پسندی کی اصلاح کے لیے حکام کے حوالے کیا گیا، جن میں زیادہ تر ۹ سال یا اس سے کم عمر کے بچے تھے۔ اس سے ایک سال پہلے پریونٹ کے تحت ۱۶۸۱ بچوں کو حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔ ویسٹ مڈ لینڈز میں گزشتہ سال ۷۸۸ طلبہ کو شدت پسندی کے شبہ میں حکام کے حوالے کیا گیا تھا جن میں سے ۶۸ بچے ۹ سال یا اسے کم عمر کے تھے۔ ۱۸۳ بچے دس سے چودہ سال کے عمر کے تھے اور ۲۳۳ طالب علم پندرہ سے انیس سال کی عمر کے تھے۔
گزشتہ سال مارچ میں روزنامہ گارڈین نے انکشاف کیا تھا کہ کس طرح لندن کے مضافاتی شہر لوٹن میں نرسری اسکول کی ایک ٹیچر نے ایک چار سالہ بچے کی ’’شدت پسندی‘‘ کی پولیس کو اطلاع دی کہ اس نے ایک ایسی تصویر بنائی ہے جس کے بارے میں ٹیچر کا خیال تھا کہ اس میں بچہ نے اپنے والد کو کوکر بم تیار کرتے دکھایا ہے۔ درحقیقت، اس تصویر میں بچہ نے اپنے والد کو چاقو سے کھیرا کاٹتے دکھایا تھا۔ ٹیچر یہ سمجھی کہ اس بچے کا والد بارودی مواد تیار کر رہا ہے۔
ایک امریکی این جی او ’’اوپن سوسائٹی جسٹس انیشیٹو‘‘ نے پریونٹ کے بارے میں اپنے تازہ جائزے میں کہا ہے کہ یہ حکمت عملی یکسر ناکام ہو چکی ہے جس کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کے حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔ اس این جی او نے اس پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پرائمری اسکولوں کے بچوں سے ان کے والدین کی مرضی کے بغیر معلومات جمع کی جاتی ہیں۔ ایک ۱۷ سالہ طالب علم کو محض اس بناء پر پولیس کے حوالے کیا گیا کہ اس کے کالج کے حکام کا کہنا تھا کہ یہ مذہب کی طرف راغب ہوگیا ہے۔ امریکی این جی او نے پریونٹ کی حکمت عملی کا جائزہ لینے کے لیے کمیشن کے قیام پر زور دیا ہے۔
برطانیہ کے مسلم رہنماؤں اور دانش وروں کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے، جس کا وہ مصلحتاً کھلم کھلا اظہار نہیں کرتے کہ برطانیہ میں مسلم نوجوانوں میں شدت پسندی کے بنیادی اسباب پر غور نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں کبھی طالبان، کبھی القاعدہ اور عام طور پر داعش کی دہشت گردی کے خلاف جذبات کی چادر میں چھپا دیا جاتا ہے۔ بارہ سال قبل لندن میں ٹرانسپورٹ کے نظام پر مسلم نوجوانوں کے حملے کے بعد ایک لمحہ کے لیے بھی غور نہیں کیا گیا کہ اس حملے کے عوامل کیا ہیں۔ ان حملہ آوروں میں سے ایک تنویر شہزاد نے حملہ سے پہلے ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ برطانیہ کے غیر مسلم، ایسے حملوں کے مستحق ہیں کیوں کہ انہوں نے ایسی حکومت منتخب کی ہے جو فلسطین، افغانستان، عراق اور چیچنیا میں ہماری ماؤں بہنوں، بھائیوں اور بچوں پر ظلم کر رہی ہے۔ تنویر نے کہا تھا کہ ’’یہ حملے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک افغانستان اور عراق سے برطانیہ کی فوجیں نہیں نکل جاتیں۔‘‘
بارہ سال قبل کسی نے تنویر شہزاد کے اس بیانیہ پر سنجیدگی سے غور کیا۔ نتیجہ یہ کہ برطانیہ کے مسلم نوجوانوں میں یہ ناراضی جڑ پکڑتی گئی۔ ایک بنیادی وجہ مسلم نوجوانوں میں اس ناراضی کی برطانیہ کی خارجہ پالیسی ہے، جسے نہ صرف مسلم نوجوانوں میں بلکہ ان کے بوڑھوں میں بھی، مسلم ممالک کے خلاف تصور کیا جاتا ہے۔ گزشتہ سولہ سال کے اندر اندر چار مسلم ممالک، افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کے خلاف جنگ اور وہاں حکومتوں کی تبدیلی کے لیے دوسری مغربی قوتوں کے ساتھ مل کر برطانیہ کی فوجی مداخلت نے مسلم نوجوانوں میں برطانیہ کی خارجہ پالیسی پر شکوک و شبہات کو تقویت دی ہے۔ اسرائیل کے بارے میں برطانیہ کی وارفتگی اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے ظلم و ستم پر خاموشی کو یہ مجرمانہ عمل قرار دیتے ہیں۔
باقی صفحہ9پر
برطانیہ میں شدت پسندی کے اسباب پر پردہ پوشی!
وہ اس بات کو نہیں بھولے کہ غزہ کے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے دوران برطانیہ کے مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود برطانیہ متواتر اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتا رہا۔ برطانیہ کی خارجہ پالیسی پر مسلم نوجوانوں کی ناراضی اس بناء پر اور شدید ہے کہ یہ اس پالیسی کو جمہوری طور پر تبدیل کرنے کے سلسلے میں اپنے آپ کو بے بس اور بے کس سمجھتے ہیں۔
مسلم نوجوانوں میں شدت پسندی کی ایک اور بڑی وجہ، معاشی میدان میں ان کا بڑھتا ہوا احساس محرومی ہے۔ ان کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ ان کے روزگار کے مواقعے بڑی تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ مسلمانوں میں اس وقت بے روزگاری کا سنگین بحران ہے۔ اس وقت مسلمانوں میں بے روزگاری ساڑھے بارہ فی صد ہے جب کہ برطانیہ کی آبادی میں بے روزگاری کی شرح ساڑھے پانچ فی صد ہے۔ پچھلے دنوں دارالعوام کی کمیٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوسرے اہل مذاہب کے مقابلہ میں مسلمانوں میں بے روزگاری تشویش ناک حد تک بہت زیادہ ہے۔ مسلم خواتین کی صورت حال بہت ابتر ہے۔ مسلم بے روزگاروں میں خواتین کی تعداد ۶۵ فی صد ہے۔
بے روزگاری کے مسئلے کے علاوہ مسلم نوجوانوں میں شدت پسندی میں اضافہ کی ایک وجہ ، بیگانگی کا احساس ہے، اس صورت حال میں مسلمانوں کے خلاف میڈیا اور عام طور پر عوام کے اظہار نفرت کی وجہ سے یہ احساس خوف میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ یہ عجیب و غریب حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسل جو برطانیہ میں پیدا ہوئی ہے اور یہاں پروان چڑھی ہے وہ اپنے والدین کے مقابلے میں جو سن ساٹھ، سن ستر اور سن اسی کے عشرہ میں برطانیہ آئے تھے کہیں زیادہ اجبنی اور بے گانہ محسوس کرتی ہے۔ وہ اس بات کے شاکی ہیں کہ اس ملک میں پیدا ہونے کے باوجود ان سے ان کے انگریز پوچھتے ہیں کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔ بیش تر مسلم نوجوانوں کا اس بات پر خون جلتا ہے کہ جب وہ شام میں مصائب میں مبتلا مسلمانوں کی امداد اور خدمت کے لیے وہاں جانا چاہتے ہیں تو ان پر شک کیا جاتا ہے کہ وہ داعش میں شرکت کے لیے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صحیح ہے کہ برطانیہ سے چھ سو نوجوان داعش میں شامل ہونے کے لیے شام گئے ہیں لیکن سب مسلمانوں پر شک و شبہ ان کے سمجھ میں نہیں آتا اور اسے وہ برطانوی مسلمانوں پر بے حد نا پسندیدہ عدم اعتماد تصور کرتے ہیں۔