رضا ربانی کی بکواس

208

سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کا شمار پیپلز پارٹی کے ان ’’مہذب‘‘ لوگوں میں کیا جاتا ہے جنہیں شمار کرنے کے لیے ایک ہاتھ کی انگلیاں بھی زیادہ ہیں۔ لیکن رضا ربانی صاحب بعض اوقات ایسی باتیں کہتے ہیں جنہیں پڑھ کر خیال آتا ہے کہ انہوں نے ’’بکواسیات‘‘ میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت چند روز پیش تر ہی فراہم ہوا ہے۔
کراچی میں اپنے افسانوں کی کتاب invisible people کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ ملک میں دہشت گردی اور عدم برداشت کی صورت حال جنرل ضیا الحق کی طویل آمریت کا شاخسانہ ہے۔ میاں رضا ربانی کے بقول جنرل ضیا الحق نے ریاستی طاقت کے ذریعے معاشرے کے تین ستون طلبہ انجمن، محنت کشوں کی انجمن اور کافی ہاؤس تباہ کردیے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل ضیا الحق نے طلبہ انجمنوں پر پابندی لگا کر اور دائیں بازو کو آزادی یا ان کے الفاظ میں free hand دے کر غضب کیا کیوں کہ اس سے دہشت گردی اور عدم برداشت کو فروغ حاصل ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ اگرچہ میری مادری زبان اردو ہے لیکن میں نے کتاب انگریزی میں مکمل کی ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میری اردو کمزور ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے قوم پر مسلط کیا گیا حالاں کہ متحدہ پاکستان کے لوگوں کی اکثریت بنگالی تھی۔
جنرل ضیا الحق کے آمر ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں۔ لیکن آمریت صرف فوجی نہیں ہوتی، آمریت سول بھی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آمریت ایک رویہ ہے، ایک مزاج ہے، بدقسمتی سے جنرل ضیا الحق کی آمریت کے ظہور سے پہلے ملک پر بھٹو کی سول آمریت کا قبضہ تھا۔ بھٹو آمر اور فاشسٹ تھے۔ انہوں نے ملک میں آزادئ اظہار کو کچلا۔ اخبارات پر پابندیاں لگائیں۔ جسارت سمیت کئی اخبارات کو بند کیا، صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا، بھٹو صاحب کی آمریت سیاسی حریفوں کو بھی معاف نہیں کرتی تھی۔ بھٹو صاحب عوام میں مقبول تھے مگر اس کے باوجود وہ سیاسی حریفوں کو برے القابات سے نوازتے تھے۔ انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو اغوا کرایا، انہیں جیل میں ٹھونسا۔ ان پر بدترین تشدد کیا، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل ضیا کی عسکری آمریت کی آمد سے پہلے ملک پر بھٹو صاحب کی سول آمریت کا غلبہ تھا۔ رضا ربانی میں اگر ذرا سی بھی تہذیب ہے تو انہیں جنرل ضیا الحق کی آمریت کے ساتھ ساتھ بھٹو آمریت کی بھی مذمت کرنی چاہیے۔
بلاشبہ جنرل ضیا الحق نے طلبہ انجمنوں اور طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی لیکن طلبہ تنظیموں پر پابندی سے بائیں بازو سے کہیں زیادہ دائیں بازو کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کو نقصان ہوا۔ سیکولر اور لبرل لوگوں میں ایماندار ی تو ہوتی نہیں‘ ہوتی تو رضا ربانی اعتراف کرتے کہ طلبہ تنظیموں پر پابندی سے پہلے ملک کے 70 فی صد کالجوں اور جامعات میں اسلامی جمعیت طلبہ کی انجمنوں نے کامیابی حاصل کی تھی، چناں چہ طلبہ تنظیموں پر پابندی کا سب سے زیادہ نقصان اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کو ہوا۔ یہ بات بھی تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے طلبہ تنظیموں پر پابندی کے خلاف ملک گیر جدوجہد کی۔ اس جدوجہد میں جمعیت ریاستی اداروں سے مار کھاتی رہی۔ اس نے رہنما اور کارکنان جیل جاتے رہے اور بسا اوقات ان پر تھانوں اور جیلوں میں تشدد بھی ہوا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جنرل ضیا الحق دائیں بازو کے کیسے ’’حامی‘‘ و ’’پرستار‘‘ تھے لیکن یہاں کہنے کی ایک بات اور بھی ہے وہ یہ کہ جنرل ضیا کے بعد رضا ربانی کی ’’روشن خیال‘‘ پیپلز پارٹی ایک بار نہیں تین بار اقتدار میں آئی ہے اور سندھ میں وہ اب بھی برسر اقتدار ہے لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے طلبہ انجمنوں اور طلبہ تنظیموں کو بحال کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس اعتبار سے جنرل ضیا الحق کی آمریت اور پیپلز پارٹی کی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟ لیکن رضا ربانی کو جنرل ضیا الحق کی آمریت تو نظر آتی ہے مگر پیپلز پارٹی کی شرمناک اور رکیک آمریت نظر نہیں آتی۔ یہاں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی پہلے دن سے بھٹو خاندان کی باندی ہے۔ پیپلز پارٹی میں انتخابات نہ بھٹو صاحب کے دور میں ہوئے، نہ بے نظیر بھٹو کے دور میں اور نہ آصف علی زرداری کے عہد میں۔ اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی سول آمریت کی ایک بلند علامت ہے۔ ایسی علامت کہ کوئی مہذب شریف، صاحب عزت اور جمہوریت پسند شخص پیپلز پارٹی کا حصہ بن سکتا ہے نہ حصہ رہ سکتا ہے۔ رضا ربانی اس کے باوجود بھی پیپلز پارٹی میں ہیں تو ان کی روحانی، اخلاقی اور تہذیبی اوقات عیاں ہے۔
’’مہذب‘‘ کہلانے والے میاں رضا ربانی نے یہ تاثر دیا ہے کہ جنرل ضیا الحق نے دائیں بازو کو تقویت فراہم کی ورنہ اس سے قبل دائیں بازو کی کوئی اوقات نہ تھی۔ لیکن میاں رضا ربانی کی یہ بات بھی بکواسیات میں ان کی پی ایچ ڈی ہونے کا ثبوت ہے۔
دائیں بازو کی اصل قوت مذہب ہے، اور اسلام پاکستان میں مظلوم تو ہمیشہ سے ہے، کمزور مگر وہ کبھی بھی نہیں رہا۔ بھٹو کے عہد میں بھی بایاں بازو قوی تھا اور اس کا نقطہ نظر یا اس کا بیانیہ رضا ربانی کے ’’عظیم رہنما‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی متاثر کررہا تھا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ بھٹو صاحب نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ایجاد کیا۔ حالاں یہ دونوں اصطلاحیں ایک دوسرے کی ضد تھیں۔ لیکن اگر بھٹو صاحب کہتے کہ وہ صرف سوشلسٹ ہیں اور ان کو اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے تو پاکستان کے عوام چند مہینے میں ان کا دھڑن تختہ کردیتے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسلامی سوشلزم کی مضحکہ خیز اصطلاح وضع کی۔ لیکن دائیں بازو کی قوت کا معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں۔ اقتدار پر بھٹو صاحب کا غلبہ تھا۔ مگر اس کے باوجود دائیں بازو نے ان سے 1973ء میں ’’اسلامی آئین‘‘ منظور کرالیا۔ یہاں تک کہ بھٹو صاحب نے دائیں بازو کی قوت کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ انہوں نے شراب پر پابندی لگائی اور جمعے کی تعطیل کا اعلان کیا۔ ان تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جنرل ضیا کی آمد سے بہت پہلے بھی دایاں بازو قومی تھا اور معاشرے پر اس کا گہرا اثر تھا۔ اس کے برعکس جنرل ضا الحق کے اقتدار میں آنے سے دایاں بازو کمزور ہوا کیوں کہ جنرل ضیا الحق سے دائیں بازو کے پورے بیانیے کو اغوا کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔ سیکولر اور لبرل عناصر جنرل ضیا الحق پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ملک میں اسلام کاری یا islamization کی راہ ہموار کی۔ لیکن یہ بات جتنی مشہور ہے اس سے زیادہ غلط ہے۔ درست بات یہ ہے کہ جس نمائشی اور سطحی اسلام کاری یا islamization کو جنرل ضیا الحق کے دور میں فروغ حاصل ہوا اس کی ابتدا بھٹو صاحب نے کردی تھی۔ جنرل ضیا الحق نے صرف یہ کیا کہ بھٹو کے شروع کیے گئے کام کو تھوڑا سا مزید آگے بڑھادیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سیکولر اور لبرل حلقے اگر چار گالیاں ضیا الحق کو دیتے ہیں تو دو گالیاں تو انہیں رضا ربانی کے عظیم رہنما ذوالفقار علی بھٹو کو بھی دینی چاہئیں مگر رضا ربانی بھی جنرل ضیا کی آمریت اور اس کی اسلام کاری کو کوستے ہیں لیکن بھٹو کی سول آمریت اور ان کی اسلام کاری پر پردہ ڈالتے ہیں۔ کوئی شریف اور مہذب شخص ایسی رکیک حرکت نہیں کرسکتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں رضا ربانی کی تہذیب بھی ایک ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں۔
میاں رضا ربانی نے اپنے خطاب میں اردو پر بھی بجلی گرائی ہے اور بکواسیات میں اپنی مہارت کا مزید اظہار کیا ہے۔ انہوں نے تاثر دیا ہے کہ اردو کو پاکستان پر ’’مسلط‘‘ کیا گیا حالاں کہ اردو کو کسی پر مسلط کرنے والا نہ پہلے کوئی موجود تھا نہ اب کوئی موجود ہے۔ ملک میں سیکولر ازم کی بات ہوتی ہے تو سیکولر اور لبرل عناصر قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر اٹھالیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں قائد اعظم کے vision سے رجوع کرنا چاہیے۔ لیکن جب اردو کی بات ہوتی ہے تو انہیں قائد اعظم کا vision یاد نہیں آتا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اردو نہ قائد اعظم کی مادری زبان تھی اور نہ اردو کبھی ان کا ذریعہ تعلیم رہی تھی مگر اس کے باوجود انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اردو ہوگی۔ میاں رضا ربانی کو اردو کے سلسلے میں بنگالیوں کی اکثریت یاد آئی ہے مگر بنگالیوں کی اکثریت پر تو ان کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے تھوک دیا تھا۔ انہوں نے شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگایا اور مغربی پاکستان کے منتخب اراکین کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ڈھاکا میں طلب کیے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی تو ان کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔