ہندوستان، ہندو ریاست کی دہلیز پر

202

یہ جنوری 62ء کی بات ہے، دلی میں ممتاز صحافی اور دانشور دیس راج گویل سے ہندوستان کی سیاست پر گفتگو ہو رہی تھی۔ اس دوران جب ذکر ہندو قوم پرستی کا ہوا تو انہوں نے ایک لمبی سانس لے کر کہا کہ مجھے خطرہ ہے کہ جلد یا دیر وہ دن آنے والا ہے جب ہندوستان پر کٹر ہندو قوم پرست نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS)کی حکمرانی ہوگی۔ میں نے سخت تعجب کا اظہار کیا کہ اس وقت جب کہ سیکولر کانگریس سیاست پر چھائی ہوئی ہے، دوسرے آر ایس ایس، انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت نہیں اور پھر اس کی سیاسی چوب دار جماعت جن سنگھ کے 451اراکین کی لوک سبھا میں لے دے کر صرف دو اراکین، اٹل بہاری واجپائی اور بلراج مدھوک ہیں، آر ایس ایس کی حکمرانی کیوں کر ممکن ہے۔
دیس راج گویل نے کہا کہ جوانی میں میرا آر ایس ایس سے قریبی تعلق رہا ہے جو 50ء تک جاری رہا ہے۔ اس کے بعد سے میری اس تنظیم پر گہری نظر رہی ہے اور میں نے اس کی تاریخ، اس کے فلسفہ، اس کے تنظیمی ڈھانچے اور اس کے مقاصد کا بھرپور مطالعہ کیا ہے۔
جس زمانہ میں گویل صاحب سے ملاقات ہوئی تھی، ان دنوں وہ جریدہ سیکولر ڈیموکریسی کے ایڈیٹر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صحیح ہے کہ جن سنگھ کے لوک سبھا میں صرف دو اراکین ہیں لیکن آر ایس ایس نے 1925 سے جب اس کا قیام عمل میں آیا تھا، نئی نسل پر ہندو قوم پرستی کے جذبہ کو اس انداز سے پروان چڑھایا اور فروغ دیا ہے کہ یہ ایک دن آتش فشاں کی طرح پھٹے گا۔ گویل صاحب کا کہنا تھا کہ ہندووں اور خاص طور پر نوجوانوں کو بڑے منظم طریقہ سے یہ احساس دلایا گیا ہے کہ چندر گپتا موریہ کے بعد جس نے 523ء میں ہندوستان کو پہلی بار شمال سے لے کر جنوب تک متحد کیا تھا، ہندوستان، غیر ملکیوں کے حملوں کا نشانہ بنتا رہا ہے اور غیر ملکی حکمرانوں کا غلام رہا ہے۔ نئی نسل کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی کہ ایک ہزار چھ سو سال بعد 1947 میں پہلی بار ہندوستانیوں کو آزادی ملی ہے لیکن یہ آزادی اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک ہندوستان میں ہندوتوا کا مکمل راج قائم نہیں ہوتا۔ گویل صاحب کا کہنا تھا کہ ہندو نوجوانوں میں یہ لاوا اندر اندر ہی پک رہا ہے، جو کسی وقت آتش فشاں کی طرح پھٹ سکتا ہے۔
1998میں جب اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی، جو جن سنگھ کے بطن سے پیدا ہوئی تھی، حکومت بنی تو ہندو قوم پرستوں میں یہ احساس جاگزیں ہوا تھا کہ وہ ہندو ریاست کے قیام کی منزل کے قریب آپہنچے ہیں لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں دوسری جماعتیں بھی شامل تھیں لہٰذا، واجپائی ہندو ریاست کے قیام کی منزل حاصل نہ کر سکے اور 2004 کے انتخابات ہار گئے۔ 2014 کے عام انتخابات کے لیے لال کرشن ایڈوانی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت اعظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے دعوے دار تھے لیکن ان کی جگہ آر ایس ایس نے نریندر مودی کو ترجیح دی، جن کے دور میں گجرات میں 2000میں مسلم کش فسادات ہوئے تھے جس کے دوران دو ہزار مسلمان قتل کر دیے گئے تھے۔ پھر مودی کے سر پر گجرات میں تین بار انتخابات جیتنے کا بھی تاج بھی سجا ہوا تھا۔
2014 کے عام انتخابات میں پہلی بار بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندوتوا کے نعرے اور ملک کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کی حمایت کے بل پر اتنی بھاری اکژیت حاصل کی کہ اسے حکومت سازی میں کسی اور جماعت کی مدد کی ضرورت نہ رہی۔ نریندر مودی نے ہندوتوا کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے پہلے میدان صاف کرنے اور مختلف ریاستوں میں انتخابات جیتنے کی حکمت عملی تیار کی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش تھی۔ جہاں، مسلمانوں کی آبادی اٹھارہ فی صد اور پس ماندہ دلتوں کی تعداد 20 کروڑ ہے۔ لیکن نریندر مودی مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر ہندو اکژیت کے بل پر اتر پردیش کو فتح کرنے میں کامیاب رہے۔ گورکھپور کے ناتھ مندر کے مہنت یوگی ادتیاناتھ کو وزیر اعلیٰ کے سنگھا سن پر بٹھا کر نریندر مودی نے ہندوتوا کا پرچم لہرایا۔ یوگی وزیر اعلیٰ نے نعرہ تو مودی کا لگایا ہے۔ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس (ترقی)‘‘ لیکن عملی طور پر وہ ہندو راشٹر کے قیام کی راہ پر گامزن ہیں۔ یوگی نے اپنی 50 رکنی کابینہ میں صرف ایک مسلمان وزیر، محسن رضا کو شامل کیا ہے، جب کہ ریاست میں مسلمانوں کی کل آبادی 13 کروڑ ہے۔
حکومت سنبھالتے ہی یوگی وزیر اعلیٰ نے پوری ریاست میں، 25 ہزار مذبح بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ جواز یہ بتایا ہے کہ بیش تر مذبح غیر قانونی تھے کیوں کہ ان کے لائسنس کی معیاد ختم ہوگئی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی منشور میں صرف غیر قانونی مذبح کو بند کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن یوگی نے اس سے بڑھ کر تمام مذبح بند کر دیے۔ ان مذبح میں سے کسی میں گائے ذبح نہیں کی جاتی تھی بلکہ بھینس، بیل اور دوسرے مویشی کاٹے جاتے تھے۔ ان مذبح کے بند ہونے سے 68 لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کا خطرہ ہے، جن میں دیہات میں مویشی پالنے والے، گوشت غیر ممالک میں برآمد کرنے والے اور چمڑے کی صنعت میں کام کرنے والے شامل ہیں۔ اتر پردیش کے مذبح میں ایک کروڑ ٹن بھینس اور بیل کا گوشت چالیس ممالک میں برآمد کیا جاتا تھا۔ اور چمڑے کی برآمد سے چالیس ہزار کروڑے روپے کی آمدنی ہوتی تھی۔
یوگی وزیر اعلیٰ، اب مسلمانوں سے یوں انتقام لے رہے ہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو حکم دیا ہے کہ وہ ہاسٹلوں کے طعام خانوں میں گوشت پکانا بند کر دیں۔ یونی ورسٹی کے 19 طعام خانوں میں ہر روز 500 کلو گوشت پکایا جاتا ہے۔ اب ان میں طلبہ کو صرف، دال اور ترکاریاں کھانے کو ملیں گی۔
اب ہندوستان کو مکمل طور پر ہندو ریاست بنانے کے لیے، آر ایس ایس کے سربراہ، موہن بھاگوت کو صدر مملکت کے عہدے پر فائز کرنے کے لیے مہم چلائی جارہی ہے۔ موجودہ صدر مملکت، کانگریس کے پرناب مکر جی ہیں جن کے عہدے کی معیاد جولائی میں ختم ہورہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے بیش تر رہنما اور اراکین، موہن بھاگوت کو صدر مملکت منتخب کرنا چاہتے ہیں لیکن اس معاملہ پر تنازع پیدا ہو سکتا ہے کیوں کہ نریندر مودی، بھاگوت کی جگہ لال کرشن ایڈوانی کو صدر مملکت کے عہدے پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آر ایس ایس کی ہدایت پر ایڈوانی کی جگہ نریندر مودی کو وزیر اعظم نامزد کیا گیا تھا۔ مودی اب ان کی اشک شوئی کرنا چاہتے ہیں، دوسرے نریندر مودی، ایڈوانی کو اپنا سیاسی گرو مانتے ہیں اور انہیں صدر منتخب کر کے وہ گرو کو دکشنا پیش کرنا چاہتے ہیں۔
کانگریس کا کہنا ہے کہ وہ صدر مملکت کے لیے آر ایس ایس کے سربراہ کے انتخاب کی مخالفت کرے گی اور ان کے مقابلہ پر اپنا امیدوار کھڑا کرے گی۔ لیکن کانگریس کی جیت کا امکان نہیں کیوں کہ صدر مملکت کا انتخاب، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور ملک کی تمام ریاستی اسمبلیوں کے اراکین کرتے ہیں، جن میں اکثریت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہے۔
54سال پہلے ہندوستان کے ممتاز صحافی اور دانشور دیس راج گویل نے جو خطرہ ظاہر کیا تھا وہ اب حقیقت کا روپ دھارتا نظر آرہا ہے جب کہ ہندوستان، ہندو ریاست کی دہلیز پر پہنچ گیا ہے۔