نہ جانے کیوں، ہم نے حقائق کو چھپانے اور جھٹلانے کا وتیرہ اختیار کر لیا ہے۔ 41ممالک کے اسلامی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت اور فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف کے اس اتحاد کے سربراہ کے عہدہ پر فائز ہونے کے بارے میں نہ جانے کیوں حقائق پاکستان کی پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے پیش نہیں کیے جارہے ہیں آخر کیوں راز داری سے کام لیا جارہا ہے؟۔اسلامی فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان، سعودی عرب کے شاہ سلمان کے 30سالہ صاحب زادے ، ولی عہد دوم اور وزیر دفاع ، محمد بن سلمان نے 15دسمبر2015کو کیا تھا لیکن ابھی تک اس اتحاد میں پاکستان کی باقاعدہ شمولیت کا کوئی واضح اعلان نہیں کیا گیا ہے ۔ گزشتہ سال مارچ میں یہ خبریں شائع ہوئی تھیں کہ پاکستانی فوج کے چیف آف اسٹاف راحیل شریف ، اسی سال دسمبر میں ریٹائر ہونے کے بعد اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی سنبھالیں گے۔ اس وقت یہ خبریں تھیں کہ راحیل شریف نے اتحاد کی سربراہی قبول کرنے کے لیے تین شرائط پیش کی ہیں جن میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اس اتحاد میں ایران کو بھی شامل کیا جائے۔ ابھی تک حکومت پاکستان نے یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ آیا راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی قبول کرنے کی اجازت دی گئی ہے یا نہیں، اوریہ بھی واضح نہیں کہ آیا راحیل شریف کی شرائط قبول کی گئی ہیں یا نہیں۔
اس دوران جب اسلامی فوجی اتحاد کی ہیت اور عالم اسلام پر اس کے سیاسی اثرات اور مضمرات پر بحث ہوئی تو حکومت کے وزراء نے اچانک یہ انکشاف کیا کہ یہ اتحاد Organisation of Islmic Conference((OICکے تحت ہوگا۔ یہ بھی حقائق کو چھپانے کی کوشش ہے کیوں کہ OICکے مقاصد اور لائحہ عمل میں اس نوعیت کے فوجی اتحاد کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ستمبر 1969میں مراکش کے دار الحکومت ، رباط میں جو پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی ، جس میں OICکا قیام عمل میں آیا تھا ، وہ میں نے کور کی تھی۔ اس چار روزہ کانفرنس کے دوران جس میں 24مسلم ممالک کے سربراہوں نے شرکت کی تھی ، فوجی اتحاد کی کسی تجویز پر غور نہیں کیا گیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگ اس سربراہ کانفرنس کے انعقاد کا پس منظر نہیں بھولے ہیں۔ 21اگست 1969کو صہیونیوں نے مسجد اقصی میں آگ لگائی تھی جس پر پورا عالم اسلام مشتعل ہوگیا تھا ۔ مسلمانوں کی یہ خواہش تھی کہ مسلمانوں کے خلاف اس نوعیت کی جارحیت کا مقابلہ کیا جائے ، لیکن اس مقصد کے لیے مسلم ممالک کی فوج کی تشکیل یا فوجی اتحاد کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی ۔ سربراہ کانفرنس میں مسجد اقصی میں آتش زدگی سے پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کیا گیا تھا، مشرق وسطیٰ کے حالات زیر غور آئے تھے اور مسلم ممالک کی بکھری ہوئی قوت کو یک جا کرنے اور قریبی روابط کو فروغ دینے پر زور دیا گیا تھا۔ کانفرنس میں یروشلم ، اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں سے اسرائیل فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ سربراہ کانفرنس کے کھلے عام افتتاحی اجلاس سے پہلے کانفرنس میں ہندوستان کی شرکت پر سخت ہنگامہ برپا ہوگیا تھا۔ کانفرنس میں پاکستان کے فوجی حکمران ، جنرل یحییٰ خان شرکت کر رہے تھے۔ انہوں نے ہندوستان کی شمولیت کے بارے میں دوسرے سربراہوں کے فیصلہ سے اتفاق کیا تھا۔ لیکن اسی روز ہندوستان میں احمد آباد میں مسلم کش فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ کانفرنس کور کرنے والے پاکستانی صحافیوں نے صدر یحییٰ خان کے پریس سیکرٹری سعید خان کو بتایا کہ اس موقع پر جب کہ احمد آباد میں خونریز فسادات ہو رہے ہیں، رباط کانفرنس میں ہندوستان کی شمولیت کے فیصلہ اور اس پر پاکستان کی حمایت کے خلاف پاکستان کے عوام میں شدید ناراضی کی آگ بھڑکنے کا خطرہ ہے جس کے ان کے صدر کے لیے سنگین سیاسی مضمرات ہوں گے۔ اس وقت سربراہوں کا عشائیہ ہو رہا تھا۔ رات گئے سعید خان نے پاکستانی صحافیوں کو ان کے ہوٹل میں جگا یا اور بتایا کہ صدر یحییٰ خان نے انہیں صبح سویرے رباط سے باہر اس بنگلے میں بلایا ہے جہاں وہ ٹھیرے ہوئے تھے۔ پاکستانی صحافی جب صدر یحییٰ خان سے ملنے گئے تو انہوں نے کہا کہ میں نے ہندوستان کی شرکت کے خلاف کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم جب یہ اہم خبر بھیجنے کے لیے بنگلے سے باہر جانے کی کوشش کی تو صدر یحییٰ خان نے اپنے ADC کو حکم دیا کہ ان صحافیوں کو باہر نہ جانے دیا جاے۔ وہ در اصل یہ دکھانا چاہتے تھے کہ ان کے بائیکاٹ کے فیصلہ پر سربراہوں کا کیا رد عمل ہوگا۔اس دوران صدر یحییٰ خان کو منانے کے لیے سعودی عرب کے شاہ فیصل مراکش کے شاہ حسن، اردن کے شاہ حسین اور مصر کے نائب صدر انوار سادات کی آمد کا تانتا بندھ گیا۔ کانفرنس کا افتتاحی اجلاس صبح دس بجے ہونے والا تھا جو ملتوی کردیا گیا، آخر کار جب سربراہوں نے دیکھا کہ یحییٰ خان بائیکاٹ کے فیصلے پر اٹل ہیں اور ترکی اور ایران بھی یحییٰ خان کے فیصلے کے حامی ہیں تو سربراہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہندوستان کا وفد جو کانفرنس میں شرکت کے لیے وزیر صنعت فخر الدین علی احمد کی قیادت میں رباط پہنچا ہے، کانفرنس میں صرف مبصر کی حیثیت سے شرکت کرے گا، تو شام کو یہ اجلاس منعقد ہوا،یوں کانفرنس ٹھپ پڑنے سے بچ گئی۔
رباط کے بعد دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس 1974کو لاہور میں منعقد ہوئی اس میں بھی اسلامی فوجی اتحاد کی کوئی تجویز زیر بحث نہیں آئی ۔ تمام تر زور فلسطین کے مسئلیپر تھا۔ اس کانفرنس میں اسلامی ترقیاتی بینک کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ لاہور کانفرنس کے بعد سات سربراہ کانفرنسیں منعقد ہوئیں ان میں بھی فوجی اتحاد پر بات نہیں ہوئی۔ اب اچانک یہ تاویل پیش کرنا کہ سعودی عرب کا قائم کردہ اسلامی فوجی اتحاد OICکے تحت ہوگا حقائق سے روگردانی کے مترادف ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض ان جانی مصلحتوں کی بناء پر نواز شریف کی حکومت تذبذب کا شکار ہے اور کسی واضح اعلان سے گریزاں ہے۔